1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دیہی علاقوں میں سیلاب متاثرین کو کن کن مسائل کا سامنا ہے؟

1 ستمبر 2022

پاکستان میں ان دنوں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں مگر کئی مسائل اب بھی غور طلب ہیں۔ اقوام متحدہ نے خواتین اور لڑکیوں کو لاحق اضافی خطرات کا بھی تذکرہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4GJSY
Pakistan Überschwemmungen in weiten Teilen des Landes
تصویر: Shakeel Ahmed/AA/picture alliance

پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے گاؤں کریم بخش اور اس کے آس پاس کی زرعی زمین کا اکثریتی حصہ زیر آب ہے۔ حالیہ بارشوں اور سیلابوں کی وجہ سے ملک کے دیگر حصوں کی طرح اندرون سندھ کے اس علاقے سے بھی کئی لوگ اپنا سب کچھ کھو دینے کے بعد نقل مکانی کر چکے ہیں۔ مگر چند ایک اسی کاٹھ کباڑ اور کیچڑ کے انبار سے اپنی کھوئی ہوئی زندگی کی نشانیاں اور آنے والے کل کے لیے امید تلاش کر رہے ہیں۔

گاؤں کے وسط میں ایک زیر آب مکان کے قریب کھڑے پچپن سالہ کسان انتظار احمد کا کہنا ہے، ''ہمارے پاس نوآبادیاتی دور کی برطانوی حکومت کی جانب سے دیے گئے ملکیت کی دستاویزات تھیں۔ لیکن کئی سال قبل وہ ایسے ہی ایک سیلاب کی نذر ہو گئے تھے۔ اب ہمارے پاس جانے کو کوئی جگہ نہیں۔‘‘

پاکستان: سیلاب کے بعد صحت کے بحران کا خطرہ

پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیر آب

پاکستان: اقوام متحدہ کی ایک سو ساٹھ ملین ڈالر کی فوری اپیل

پینتیس سالہ شاہ محمد کا کہنا ہے، ''ہمارے پاس گائے، بیل اور بکریاں ہیں، اگر ہم انہیں چھوڑ کر کہیں چلے جائیں، تو یہ مویشی چوری ہو جائیں گے۔‘‘ شاہ محمد تنہا ہی اس فکر میں مبتلا نہیں، کریم بخش کے دیگر کئی افراد بھی اسی صورتحال سے دوچار ہیں۔ مال مویشی اس گاؤں کے رہائشیوں کے لیے دولت کی مانند ہیں۔ انہیں یہ فکر بھی کھائی جا رہی ہے کہ جب انسانوں کا کوئی پرسان حال نہیں، جانوروں کے لیے خوراک کا بندوبست کہاں سے کیا جائے۔

ستر سالہ گل بخش نے بتایا، ''ہمارے مکانات گر گئے۔ ہم نے درخت کاٹ کر ان کی لکڑی سے دیواریں کھڑی کیں۔‘‘

سندھ کے گاؤں کریم بخش اور اس کے آس پاس کے دیگر علاقوں میں عوام کو دیگر مسائل کا بھی سامنا ہے۔ گاؤں کے ایک رہائشی مقبول احمد ایک مختلف خطرے کی جانب توجہ دلاتے ہیں، زہریلے سانپ۔ اس علاقے میں سیلاب کے دوران خاص طور پر زہریلے سانپ پائے جاتے ہیں۔ مقبول احمد نے خبر رساں ادارے  اے ایف پی کو بتایا، ''ہم سانپوں سے حفاظت کے لیے رات کے وقت روشنی کرتے ہیں۔ کبھی کبھار کوبرا اور وائپر ہمارے ٹھکانوں میں گھس آتے ہیں۔‘‘

جو لوگ کریم بخش کو چھوڑ کر نہیں جا سکتے یا نہیں جانا چاہتے، ان کے لیے امدادی اداروں کی طرف سے کشتیوں کے ذریعے فراہم کی جانے والی امداد ان دنوں زندگی گزارنے کا واحد ذریعہ ہے۔ گاؤں میں کچھ مقامات پر ایک کلومیٹر سے زیادہ فاصلے تک گندا سیلابی پانی جمع ہے۔ ایک امدادی کارکن کے بقول ان کے ادارے نے سامان کی ترسیل کا فیصلہ اس وقت کیا جب پتہ چلا کہ کچھ خاندان کریم بخش سے جانا نہیں چاہتے۔ گو کہ ہر اسٹاپ پر طوفانی بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی تباہی کے آثار موجود ہیں۔ زیادہ تر مکانات اور بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے۔

پاکستان میں سیلاب زیادہ تباہی کی وجہ آخر کیوں بنتے ہیں؟

لاکھوں بچے اور حاملہ خواتین خطرے میں

ایک اور پیش رفت میں اقوام متحدہ کے بچوں سے متعلق ادارے یونیسیف کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں اور فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ کئی علاقوں میں بچوں کو پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سمیت غذائی قلت کا سامنا ہے۔

یونیسیف نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ اس جنوبی ایشیائی ملک میں آنے والے تین دہائیوں سے زائد عرصے میں سب سے زیادہ بارشیں اور سیلاب ہیں۔ جون کے وسط سے لے کر اب تک 1,200 سے زائد افراد ہلاک اور 33 ملین سے زیادہ متاثر ہو چکے ہیں۔

سیلاب زدہ علاقوں میں تقریباً 600,000 حاملہ خواتین کو طبی دیکھ بھال اور دماغی صحت کی خدمات کی اشد ضرورت ہے۔ یونیسف کے مطابق اگلے مہینے تک 73,000 خواتین کی ہاں پیدائش متوقع ہے، جنہیں طبی سہولیات درکار ہوں گی۔

علاوہ ازیں لاکھوں خواتین اور لڑکیوں کو اپنی جنس کی بنیاد پر خطرے کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے آبادی سے متعلق ادارے (یو این ایف پی اے) نے کہا ہے کہ جہاں خاندان بیت الخلاء تک رسائی کے بغیر عارضی خیموں اور پناہ گاہوں میں مقیم ہوں، ان علاقوں میں تشدد کا خطرہ رہتا ہے۔

ع س / ش ر (اے ایف پی، ڈی پی اے)