دیوار برلن کا انہدام: ڈوئچے ویلے کا خصوصی تبصرہ
10 نومبر 2009برلن میں دیوار کے خاتمے کی بیسویں سالگرہ پورے جرمنی میں ہر جگہ منائی گئی۔ بہت سے شہری، تجزیہ نگار اور ماہرین ایسے بھی ہیں جو اُس طریقہ کار پر تنقید بھی کرتے ہیں، جس کو اپناتے ہوئے دونوں جرمن ریاستوں کا اتحاد عمل میں آیا، اور جس طرح سابقہ مشرقی جرمن ریاست کا وجود اپنے انجام کو پہنچا۔ اس کے باوجود یہ سچ ہے کہ نو نومبر کا دن جدید جرمن اور یورپی تاریخ کا ایک خوش قسمتی والا دن ثابت ہوا، ایک ایسا دن جو اس فیصلے کا مستحق ہے کہ اسے قومی تعطیل قرار دیا جائے۔
نو نومبر 1989 کےدن اتاری گئی تصویریں دیکھی جائیں تو وہ ہر کسی کے دل پر اثر کرتی ہیں، اُس دن کے واقعات کا ذاتی طور پر مشاہدہ کرنے والوں کی باتیں سنی جائیں، تو ہر کسی کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس روز وہ غیر منصفانہ نظام اپنے انجام کو پہنچا، اور وہ دیوار ختم ہو گئی، جنہوں نے عشروں تک ایک ہی قوم کے افراد کو دو ریاستوں میں تقسیم کئے رکھا۔ یہ نو نومبر 1989 کے روز ہی ممکن ہو سکا کہ اتحاد، آزادی اور قانون کی بالا دستی کے وہ سنہرے اصول ہر جرمن باشندے کے لئے ایک ایسا سچ ثابت ہوئے، جس کا وہ خود اپنی ذات کی حد تک بھی تجربہ کر سکتا تھا، ایک ایسا تجربہ جس میں مشرقی جرمن ریاست کے آمرانہ نظام حکومت پر عوام کی کھلے پن والے معاشرے کی خواہش غالب آ گئی۔
اسی لئے آج دو عشرے بعد بھی یہ بات فراموش نہیں کی جانا چاہئے کہ یہ کام اس دور کی مغربی جرمن ریاست یا اس کے سیاستدانوں نے نہیں کیا تھا کہ دیوار برلن کا خاتمہ ممکن ہو سکا۔ یہ ہمت مشرقی جرمن ریاست کے ان شہریوں نے دکھائی، جو کئی ہفتوں تک اپنے ہی ملک کے مختلف شہروں میں کامیابی سے وسیع تر احتجاجی مظاہرے کرتے رہے۔ وہ شہری جنہوں نے لوہے اور کنکریٹ سے بنی دیوار، اور خار دار تاروں کے ساتھ کھڑی کی گئی رکاوٹیں گرانے کے لئے ایک ایسے جذبے کا مظاہرہ کیا، جسے منزل کے طور پر زیادہ شخصی آزادی، جمہوری شفافیت اور اعلیٰ سماجی اقدار کی تلاش تھی۔
بیس سال پہلے نو نومبر کے تاریخی واقعات ہی جرمن اتحاد سے لے کر آہنی پردے کے خاتمے، مشرقی یورپ میں جمہوریت کے فروغ اور مجموعی طور پر آج کی قطعی طور پر مختلف دنیا کے وجود میں آنے کا سبب بنے۔ اسی لئے اب اس فیصلے میں مزید تاخیر نہیں کی جانا چاہئے کہ نو نومبر کو جرمنی میں بالآخر قومی تعطیل قرار دے دیا جائے۔
تبصرہ : مارک کوخ / مقبول ملک
ادارت : عابد حسین