دہشت گردی کے خلاف جنگ اور منی لانڈرنگ کے الزامات
17 فروری 2012لیکن ایسے کئی ادارے یہ کام قانونی طریقے سے نہیں کرتے تھے اور یہی اُن کا ایسا عمل تھا، جس سے دہشت گرد فائدہ اٹھاتے ہوئے کالے دھن کو سفید کرتے اور اپنی شدت پسندانہ کارروائیوں کےلیے رقوم کا بندوبست کرتے تھے۔
ان پابندیوں کے بعد یوں سمجھا گیا تھا کہ پاکستان نے اقتصادی طور پر دہشت گردی اور دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ لیکن گزشتہ دنوں پاکستان کو ایک ایسی فہرست میں شامل کر لیا گیا، جو اُن ممالک کی ہے جہاں کالا دھن سفید کرنے کے خلاف کافی اقدامات نہیں کیے جا رہے۔
ہر چند کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی اس فہرست میں پاکستان سمیت دنیا کے پانچ دیگر ممالک کے شامل کیے جانے کا سرکاری طور پر کوئی مطلب نہیں نکلتا، پاکستان میں کرنسی کا کاروبار کرنے والے حلقوں کا دعویٰ ہے کہ یہ ’خواہ مخواہ کا شور ہے‘۔ کرنسی ایکسچینج ڈیلرز ایسو سی ایشن کے صدر ملک بوستان پوچھتے ہیں کہ اگر ابھی تک کسی بھی پاکستانی ادارے پر ایسا کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا، تو پھر پاکستان کو اس بلیک لسٹ میں کیوں شامل کیا گیا ہے؟
DW سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ تمام مالی طریقے جو دنیا میں اس وقت رائج ہیں، مثلا ﹰکریڈٹ کارڈ وغیرہ، ان میں سے بھی کسی کو بھی استعمال کر کے دہشت گرد اپنے مالیاتی مقاصد پورے کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے سندھ زون کے سربراہ معظم کا کہنا ہے کہ جب تک ملکی معیشت کا باقاعدہ ریکارڈ رکھنا رواج نہیں پائے گا، کالا دھن سفید بنائے جانے کو روکا نہیں جا سکے گا اور اس طرح یہ سرمایہ دہشت گردی یا کسی بھی دوسرے غیر قانونی عمل میں استعمال ہو سکتا ہے۔
ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ جائز طریقے سے آنے والے سرمائے پر نظر رکھے لیکن جو حلقے کرنسی ایکسچینج کا کام کرتے ہیں، وہ ہُنڈی یا حوالے کے ذریعے سرمایہ غیر قانونی طریقے سے ملک میں لے آتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کئی تاجر اپنے کاروباری نفع یا نقصان کو غلط رپورٹ کر کے بھی پیسے کو چھپا لیتے ہیں اور یوں یہ پیسہ کالا دھن بن جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی ان مالی وسائل کا صرف دو فیصد کے قریب حصہ ہی دہشت گردی کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔
ملک بوستان کہتے ہیں، ’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا یہ عمل صرف پاکستان کو بدنام کرنے کی ایک کوشش ہے اور در اصل ایسی کوئی بات نہیں۔ پاکستان وہی کچھ کر رہا ہے، جو دوسرے ملک کر رہے ہیں۔ یہاں اور وہاں میں کوئی فرق نہیں ہے‘۔
رپورٹ: رفعت سعید، کراچی
ادارت: عصمت جبیں