1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہشت گردی کے خلاف جنگ اور منی لانڈرنگ کے الزامات

17 فروری 2012

جب دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی سربراہی میں لڑی جانے والی جنگ میں پاکستان نے کئی اداروں پر پابندیاں لگائیں تو ان میں سے کئی ایسے بھی تھے جو صرف بیرون ملک رقوم بھیجنے یا وہاں سے سرمایہ منگوانے کا کام کرتے تھے۔

https://p.dw.com/p/14561
تصویر: FARS

لیکن ایسے کئی ادارے یہ کام قانونی طریقے سے نہیں کرتے تھے اور یہی اُن کا ایسا عمل تھا، جس سے دہشت گرد فائدہ اٹھاتے ہوئے کالے دھن کو سفید کرتے اور اپنی شدت پسندانہ کارروائیوں کےلیے رقوم کا بندوبست کرتے تھے۔

ان پابندیوں کے بعد یوں سمجھا گیا تھا کہ پاکستان نے اقتصادی طور پر دہشت گردی اور دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ لیکن گزشتہ دنوں پاکستان کو ایک ایسی فہرست میں شامل کر لیا گیا، جو اُن ممالک کی ہے جہاں کالا دھن سفید کرنے کے خلاف کافی اقدامات نہیں کیے جا رہے۔

Koffer Geld Geldkoffer
تصویر: fotolia/Peter Atkins

ہر چند کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی اس فہرست میں پاکستان سمیت دنیا کے پانچ دیگر ممالک کے شامل کیے جانے کا سرکاری طور پر کوئی مطلب نہیں نکلتا، پاکستان میں کرنسی کا کاروبار کرنے والے حلقوں کا دعویٰ ہے کہ یہ ’خواہ مخواہ کا شور ہے‘۔ کرنسی ایکسچینج ڈیلرز ایسو سی ایشن کے صدر ملک بوستان پوچھتے ہیں کہ اگر ابھی تک کسی بھی پاکستانی ادارے پر ایسا کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا، تو پھر پاکستان کو اس بلیک لسٹ میں کیوں شامل کیا گیا ہے؟

Deutschland Bundesbank Goldbarren
تصویر: picture-alliance/dpa

DW سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ تمام مالی طریقے جو دنیا میں اس وقت رائج ہیں، مثلا ﹰکریڈٹ کارڈ وغیرہ، ان میں سے بھی کسی کو بھی استعمال کر کے دہشت گرد اپنے مالیاتی مقاصد پورے کر سکتے ہیں۔

پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے سندھ زون کے سربراہ معظم کا کہنا ہے کہ جب تک ملکی معیشت کا باقاعدہ ریکارڈ رکھنا رواج نہیں پائے گا، کالا دھن سفید بنائے جانے کو روکا نہیں جا سکے گا اور اس طرح یہ سرمایہ دہشت گردی یا کسی بھی دوسرے غیر قانونی عمل میں استعمال ہو سکتا ہے۔
ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ جائز طریقے سے آنے والے سرمائے پر نظر رکھے لیکن جو حلقے کرنسی ایکسچینج کا کام کرتے ہیں، وہ ہُنڈی یا حوالے کے ذریعے سرمایہ غیر قانونی طریقے سے ملک میں لے آتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کئی تاجر اپنے کاروباری نفع یا نقصان کو غلط رپورٹ کر کے بھی پیسے کو چھپا لیتے ہیں اور یوں یہ پیسہ کالا دھن بن جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی ان مالی وسائل کا صرف دو فیصد کے قریب حصہ ہی دہشت گردی کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔
ملک بوستان کہتے ہیں، ’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا یہ عمل صرف پاکستان کو بدنام کرنے کی ایک کوشش ہے اور در اصل ایسی کوئی بات نہیں۔ پاکستان وہی کچھ کر رہا ہے، جو دوسرے ملک کر رہے ہیں۔ یہاں اور وہاں میں کوئی فرق نہیں ہے‘۔

Häuser aus Banknoten
تصویر: Fotolia/svort

رپورٹ: رفعت سعید، کراچی

ادارت: عصمت جبیں