1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دوسری عالمی جنگ کے بم اب بھی ايک خطرہ

31 اگست 2012

جرمنی ميں جنگ کے زمانے کے بم اب بھی دريافت ہوتے رہتے ہيں۔ 70 سال گذر جانے کے بعد بھی ان بموں کی آتشگير قوت بہت ہولناک ہے

https://p.dw.com/p/161Pj
تصویر: picture-alliance/dpa

اس کا اندازہ اُس آتشيں گولے سے ہوتا ہے جو ان بموں کو ناکارہ نہ بنا سکنے کی صورت ميں پھاڑنے سے بنتا ہے۔ اسے دور دور تک ديکھا جا سکتا ہے۔ پرانے لوگوں کو اسے ديکھ کر جنگ کا زمانہ ياد آ جاتا ہے۔

ماہرين کا اندازہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے چھ برسوں کے دوران جو بم جرمنی پر گرائے گئے اُن ميں سے تقريباً ايک لاکھ اب بھی سطح زمين کے نيچے اور پانی ميں پڑے ہوئے ہيں۔ جرمنی کے تحفظ فطرت اور ماحوليات کے وفاقی محکمے کا اندازہ ہے کہ صرف بحيرہء بالٹک ہی ميں 40 ہزار ٹن کيميائی جنگی مادے پڑے ہوئے ہيں ليکن انہيں 1945ء کے بعد سرد جنگ کے دور ميں اتحاديوں اور کميونسٹ مشرقی جرمنی نے اس سمندر ميں پھينکا تھا۔

کيونکہ ماہرين پچھلے دنوں ميونخ ميں برآمد ہونے والے ايک بم کو ناکارہ نہيں بنا سکے تھے اس ليے انہيں اس 250 کلوگرام وزنی بم کو پھاڑنا پڑا۔ يہ دھماکہ اتنا شديد تھا کہ اردگرد کے علاقے ميں کھڑکيوں کے شيشے ٹوٹ گئے اور ان کے چھتوں پر گرنے سے آگ لگ گئی۔ خوش قسمتی سے کوئی زخمی نہيں ہوا۔

امريکی فوج کا يہ بم تعميراتی کام کے دوران زمين ميں ايک ميٹر نيچے دبا ہوا ملا۔ يہ ايک خاص قسم کا بم ہے جس کے پھٹنے سے ايک شيشے کی نلی ٹوٹ جاتی ہے جس ميں سے ايسيٹون کيميائی محلول نکلتا ہے جس ميں بآسانی آگ لگ جاتی ہے۔ ہوا لگنے سے يہ ايک دھماکہ خيز مادے ميں تبديل ہو جاتی ہے۔ اس قسم کے بم کو ناکارہ بنانا مشکل ہوتا ہے۔ بم ٹھکانے لگانے والے ماہرين کو يہ تجربہ پچھلے نومبر ميں شہر کوبلينس ميں بھی ہوا تھا۔

بم کو پھاڑنے سے پہلے اُس پر ريت کی بورياں چن دی گئيں
بم کو پھاڑنے سے پہلے اُس پر ريت کی بورياں چن دی گئيںتصویر: picture-alliance/dpa

کوبلينس ميں دريائے رائن کے پانی کی سطح بہت نيچی ہوجانے کے بعد ايک 1400 کلوگرام وزنی بم دريافت ہوا جو کئی عشروں سے پڑا زنگ خوردہ ہو رہا تھا۔ اس کے بعد علاقے کے 45 ہزار افراد کو محفوظ جگہوں پر منتقل کرنا پڑا تھا۔ يہ دوسری عالمی جنگ کے بعد آبادی کے انخلاء کی سب سے بڑی کارروائی تھی۔

نازی دور ميں زيادہ تر کارخانے اور اسلحہ ساز فيکٹرياں صوبے نارتھ رائن ويسٹ فيليا کے گنجان آباد علاقوں ميں قائم تھيں۔ اس ليے اتحاديوں نے انہی علاقوں پر سب سے زيادہ بمباری کی تھی۔ اسی ليے اتحاديوں کے تقريباً نصف فضائی حملوں کا ہدف دريائے رائن کے کنارے آباد بڑے شہر تھے۔

بم دھماکے سے ميونخ کے مکانات کو نقصان پہنچا
بم دھماکے سے ميونخ کے مکانات کو نقصان پہنچاتصویر: dapd

بموں سے لدے جہازوں کو بھی جنگ کے دوران غرق کيا گيا تھا۔ ان بموں ميں سارين گيس جيسے زہريلے مادے بھی ہيں۔ صوبے نارتھ رائن ويسٹ فيليا کے جنگی مادوں کو ٹھکانے لگانے کے شعبے کے آرمين گيبہارڈ نے کہا: ’’ان بموں کے خول زنگ آلودہ ہو چکے ہوں گے اور اس لئے زہريلے مادوں کے رسنے کی وجہ سے پانی اور زمين کے آلودہ ہونے کا خطرہ ہے۔‘‘ خارج ہونے والے دھماکہ خيز مادے کی دھماکے کی صلاحيت بھی برقرار ہو سکتی ہے۔ اس ليے ان بموں کو ٹھکانے لگانا مسلسل دشوار ہوتا جا رہا ہے۔

K.Jäger,sas/J.Schmeller,km