1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دو کروڑ بچے ابھی بھی تعلیم سے محروم

3 مئی 2018

پاکستان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں دو لاکھ بیس ہزار اسکول ہونے کے باوجود اب بھی بیس ملین کے قریب بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ اس کی وجوہات میں غربت اور نا مناسب نصاب تعلیم بھی شامل ہیں۔

https://p.dw.com/p/2x8Ld
Pakistan Bildungslücken im Land
تصویر: Reuters/C. Firouz

ترقی سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی نے جو رپورٹ جاری کی ہے، اس کے مطابق پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اور آبادی کے لحاظ سے نوجوانوں کی شرح ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان کی 64 فیصد آبادی کی عمر 30 برس سے کم ہے۔ لیکن اس رپورٹ میں جو بات فکر انگیز ہے وہ یہ کہ  ملک میں تعلیم کے فروغ پر تو کام ہوا ہے مگر یہ تعلیم، آبادی کے ایک  حصے کوسماجی اور معاشی سطح پر محرومی سے نہیں بچا سکی ہے۔

فاٹا میں ہزاروں ’ناپید‘ اساتذہ کو سالانہ اربوں کی ادائیگیاں

پاکستان: یونیورسٹیاں تین گنا مگر ناخواندگی میں بھی اضافہ

پاکستان میں تعلیمی اصلاحات کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم  اتالیق فاؤنڈیشن سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر تعلیم  شہزاد قمر کہتے ہیں کہ جب تک نظام تعلیم اور نصاب تعلیم میں بہتری نہیں آئے گی، صورتحال میں تبدیلی ممکن نہیں۔ ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا، ’’پاکستان میں اسکولوں کے پرائمری اور سیکنڈری درجوں میں دیکھا جائے تو بچے داخلہ تو لے رہے ہیں تاہم ان کے اسکول چھوڑنے کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔ یہاں نظام تعلیم اتنا پرانا ہے پھر جو نصاب ہے اور اساتذہ کے پڑھانے کا جو انداز ہے  اور جو اسکولوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے، وہاں بچوں کا تعلیم ادھورا چھوڑنے کا معاملہ بھی سامنے آتا ہے۔ والدین بچوں کو اسکول بھیج تو دیتے ہیں لیکن بچہ جیسے جیسے پرائمری کے بعد میٹرک تک جاتا ہے، وہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ جو اور جس طرح سے ان کو تعلیم دی جا رہی ہے، وہ مستقبل میں بچوں کے کام نہیں آئے گی تو وہ بچوں کو اسکول سے نکال کر ایسے کام پر لگانے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے لیے مالی طور پر فائدہ مند ہو۔اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ نظام تعلم کو بہتر کرنے کے لیےنیا نصاب لائے۔ ‘‘

Pakistan Bildungslücken im Land
تصویر: Reuters/C. Firouz

یو این ڈی پی کی اس رپورٹ میں خواندگی کے حوالے سے یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ملک میں بچوں کے اسکول میں داخلے میں نمو یا اضافے کی شرح اس وقت محض 0.92 فیصد ہے۔ اس کی بنیاد پر یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ملک کے تمام بچوں کے اسکول میں داخلوں کی سو فیصد شرح کا ہدف  حاصل کرنے میں ابھی مزید  60 سال کا وقت درکار ہے۔ شہزاد قمر کے مطابق یہ اسی وقت ہی ممکن ہو سکے گا جب بڑے شہروں میں ہی نہیں بلکہ دور دراز کے گاؤں دیہات میں بھی اسکول کھولے جائیں۔ شہزاد قمر مزید کہتے ہیں حکومت نے جو اعداد وشمار جاری کر رکھے ہیں وہ بہت ہی عجیب سی صورتحال سامنے لاتے ہیں، ’’ اگر حکومت کی جانب سے گزشتہ دو سالوں کے دوران جاری کردہ اعداد وشمار کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ  ملک میں اسکولوں کی تعداد زیادہ لیکن اساتذہ کی تعداد کم ہے۔ دوسری جانب سرکاری اسکولوں کی تعداد گزشتہ دو برسوں میں کم بھی ہو رہی ہے۔ کئی اسکول بند ہوئے ہیں اور کئی کا آپس میں انضمام بھی کیا گیا ہے۔‘‘

شہزاد قمر کے مطابق  صرف پڑھنے، لکھنے اور ریاضی کے روایتی انداز تعلیم سے ہٹ کر حکومت کی جانب سے بچوں اور نوجوانوں کو فنی تعلیم دینے کا بھی انتظام ہونا چاہیے تاکہ ان کے روزگار کے مسائل بھی حل ہو سکیں اور والدین بچوں کو ان کے معاشی مستقبل کی فکر سے آزاد ہو کر  تعلیم دلوا سکیں۔

فاٹا کے اسکولوں کی دگرگوں صورتحال