1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا الٹی پلٹی

2 اپریل 2021

ان دنوں جب ماضی کے افغان مجاہدین اور طالبان کو ماسکو کی یاترا پر دیکھا تو افغانستان کے تاریخی تضادات کے کھنڈرات پر سمجھوتوں کی نئی عمارت تعمیر ہوتے نظر آئی۔ اویس توحید کا بلاگ

https://p.dw.com/p/3rWmT
تصویر: privat

مذاکراتی میز کے ایک طرف افغان جہاد کے کمانڈر گلبدین حکمت یار، ملا عمر کے دست راست ملا غنی برادر، دوسری طرف روس کے وزیر خارجہ، امریکا کی نمائندگی کرتے ہوئے زلمے خلیل زاد اور نائن الیون کے بعد امریکا کے "وفادار” کہلائے جانے والے حامد کرزئی، یہ سب سر جوڑے مصروف کہ کس طرح افغانستان میں امن قائم ہو سکتا ہے۔  

ستر کی دہائی سے اب تک کا افغانستان کی تاریخ کا سفر کہیں یا افغانستان کی تباہی کا سفر۔ کون قصوروار اور تباہی کا کون کم یا زیادہ زمہ دار۔ ماسکو میں موجود ان کرداروں کے کرتوتوں کو مورد الزام ٹھہرایں یا امریکا اور روس جیسی غیر ملکی طاقتوں کو جنہوں نے افغانستان پر جنگ مسلط کی تھی۔ 

ماضی میں ایک دوسرے کے جانی دشمن اور اب ایک ہی میز پر ہم پیالہ، ہم نوالہ۔ امریکا اور مجاہدین کے ہاتھوں سوویت یونین کی شکست اور سلطنت کا شیرازہ بکھر جانا۔ نائن الیون کے بعد امریکا کی افغانستان پر چڑھائی کے بعد طالبان دور کا خاتمہ اور اب ایک دوسرے کے ساتھ صلح کی کوششیں۔ 

گزشتہ کل کے تنازعات اور آج کے سمجھوتے دنیا کی تاریخ رہی ہے۔ لیکن مسئلہ افغانستان میں ان ریاستوں اور گروہوں کے دامن پر ایک دوسرے کے خون کی چھینٹیں بھی ہیں اور نظریاتی اختلافات، مفادات اور تضادات کی نوعیت خطرناک حد تک الجھاؤ کا شکار رہی ہے۔

روس کی میزبانی۔ ماسکو میں افغان رہنماؤں، امریکا اور طالبان کے مابین افغان امن پر صلح مشورے۔ 

حال کی تصویریں اور ماضی کی خون آلود تصاویر، کیا تاریخ کے البم میں ایک ساتھ سجائی جا سکتی ہیں؟ سوچیں تو سر چکرا جائے۔ 

ستر اور اسی کی دہائی میں کمانڈر گلبدین حکمت یار ہوں یا ملا برادر ان سب نے امریکی ہتھیاروں اور "ڈالروں” کے انبار کے عوض روسی فوجیوں کی لاشوں کے ڈھیر لگا دیے تھے۔ کچھ برس قبل جب میرا یوکرائن جانا ہوا تو دارالحکومت "کییف” کے وار میوزیم میں افغان "جہاد” یا جنگ کی دنوں کے بے شمار لاپتہ فوجیوں کی تصاویر آویزاں دیکھیں اور ان کے غمزدہ رشتہ داروں سے ملاقاتیں بھی ہوئیں۔  

افغان جہاد کے دنوں میں ان ہلاک ہونے والے روسی فوجیوں کو اکثر زنکی بوائز کہا جاتا تھا کیونکہ انکی لاشیں زنک یعنی جست کے بنے تابوتوں میں سابقہ سوویت یونین واپس بھیجی جاتی تھیں۔ 

بیلا روس کی نوبل پرائز جیتنے والی مصنفہ سویتلانا الیکسیویچ نے ان فوجیوں کی کہانیوں اور ان کے رشتہ داروں کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب کے ٹائٹل کا انتخاب بھی "زنکی بوائز” منتخب کیا تھا۔

سوویت یونین کی شکست کے بعد افغانستان کی سرزمین تباہی  کی ایسی بھول بھلیاں میں ہی کھوئی رہی، جہاں امن کی تلاش عموماً غیر ملکی طاقتوں اور کمانڈروں کے مابین ضرورتوں اور سمجھوتوں کی عکاس رہی۔ یا پھر یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ جنگ کی پنجہ آزمائی کے بعد تھکے ہوئے شکاریوں کی طرح کچھ سستانے کی کوشش تھی۔

 ہم اپنی تحریر کے اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں یعنی دماغ کو چکرا دینے والے موجودہ حالات و واقعات۔ ماسکو کی اس نشست میں طالبان کے مرحوم کمانڈر جلال الدین حقانی کے بیٹے انس حقانی بھی تھے۔ کرزئی صاحب اور روسی وزیر خارجہ کی ان سے پر تپاک انداز میں مصافحہ کرتے ہوئے تصاویر بھی دیکھی جا سکتی تھیں۔

ایک عجب کہانی ہے۔ انس کے والد جلال الدین حقانی افغان جہاد کے دوران امریکا کی سوویت یونین کے خلاف لڑائی کے اہم کمانڈر رہے تھے۔ وائٹ ہاؤس میں آنا جانا تھا، صدر ریگن کے ساتھ ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ 

لیکن تاریخ کہیں یا حالات کا پلٹا کھانا۔ نائن الیون کے بعد حقانی نیٹ ورک امریکا کے لیے القاعدہ کے ساتھ بدترین دشمن تصور کیا جانے لگا۔ امریکی اہلکاروں کی زبان پر اسامہ بن لادن کے ساتھ حقانی نیٹ ورک کا نام ہوتا تھا اور افغانستان کے ہر مسئلے کی جڑ اسی نیٹ ورک کی بنیادوں میں ڈھونڈی جاتی تھی۔ 

اب جب امریکا افغانستان میں جنگ کرتے کرتے شاید تھک گیا اور امن کا منترا شروع ہوا تو کل کے بڑے دشمن حقانی نیٹ ورک کے کمانڈر سراج حقانی کا امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز میں افغانستان کی صورتحال پر ادارتی بھاشن شائع کیا گیا۔ 

 کرزئی جو کل حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے خلاف امریکا کے ہم زبان تھے آج انہی کرداروں کے ساتھ غیر ملکی امن یاتراوں میں مصروف ہیں۔ 

احمد شاہ مسعود جو زندگی بھر حکمت یار اور طالبان کے دشمن رہے۔ ان کے شمالی اتحاد نے امریکا کے ساتھ مل کر طالبان کے خلاف لڑائی بھی لڑی۔ احمد شاہ مسعود، جو ایک خودکش حملے میں مارے گئے تھے، ان کے قریبی ساتھی عبداللہ عبداللہ اب طالبان کیساتھ مذاکرات کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ 

ایران کو ہی لے لیجیے۔ امریکا سے گویا ازلی دشمنی۔ طالبان دور میں انتہا پسندی اور مخصوص فرقہ وارانہ سوچ کے پیش نظر فقہ، سوچ، فکر کی بنیاد پر شدید اختلافات رہے۔ لیکن اب طالبان کے تہران سے کافی تعلقات نظر آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایران میں طالبان کو غیر اعلانیہ طور پر کافی آزادی حاصل ہے۔ 

ایران نے القاعدہ کے ساتھ ایک حد تک تعلقات بھی رکھے۔اطلاعات تو ایسی بھی تھیں کے اسامہ کے بیٹے حمزہ، جو چند برس قبل ایک حملے میں ہلاک کر دیے گئے تھے، انہوں نے القاعدہ کے اہم رہنما سیف العادل کے ساتھ ایران میں پناہ حاصل کی تھی۔ 

پاکستان نے بھی قلابازیاں کھائیں اور طالبان نے بھی۔

طالبان کمانڈروں کو ماسکو میں دیکھ کر مجھے وہ بے رحم لمحات یاد آ گئے، جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تھا۔ روس نواز سابق افغان صدر نجیب کو کابل میں اقوام متحدہ کے کمپاؤنڈ سے گھسیٹ کر نکالنے کے بعد ان کی لاش کو چوراہے پر لٹکا دیا گیا اور ان کے منہ میں سگریٹ اور غیر ملکی کرنسی ٹھونس دی گئی تھی۔ ظالمانہ اور انتہا پسند کارروائی۔ روس نے شدید احتجاج بھی کیا تھا لیکن آج وہی طالبان ماسکو میں۔ خیر اب تاریخ کے اوراق پر نئی تحریر رقم ہو رہی ہے۔ اسی دنیا میں ریاستوں کے بدلتے اطوار ہیں، چاہے ریاستیں ہوں یا نظریاتی گروہ۔

پرانے زمانے، پرانی دنیا ہو گئی پرانی بات۔اب دنیا ہے بس الٹی پلٹی۔ 

مگر چند دن قبل جب میری ملاقات اپنے اسکول اور کالج کے بعض کامریڈ دوستوں سے ہوئی تو انہیں یہ بات سمجھانے سے قاصر رہا۔ بحث میں الجھے ہوئے  تھے اور خیالات میں واضع تقسیم۔ کچھ کا ماننا تھا کہ روسی ویکسین لگوائی جائے اور بعض کے دلائل چینی ویکسین کے حق میں۔ شاید اسی طرح جیسے سوویت یونین کے ٹوٹنے سے قبل پرانے زمانے میں کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں میں دنیا میں انقلاب کے لیے ماسکو اور بیجنگ نواز دھڑوں کی تقسیم۔ ہم تو سوچوں میں گم گھر واپس لوٹے، ایک طرف روس کی میزبانی میں طالبان امریکا کے درمیان مذاکرات پر صلح مشورے دوسری طرف ہمارے یہ دوست۔