1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستعراق

دس سال بیت گئے لیکن ایزدی ابھی تک تلخ یادیں لیے پھرتے ہیں

3 اگست 2024

دہشت گرد گروہ داعش کے ہاتھوں قتل عام کے دس سال بعد بھی ایزدی انصاف کے متلاشی ہیں۔ ٹھیک دس سال قبل تین اگست سن دو ہزار چودہ کو اس عراقی کمیونٹی پر حملوں کا آغاز ہوا تھا۔

https://p.dw.com/p/4j36t
Kanada Toronto Proteste von Jesiden gegen islamistischen Terror im Irak
تصویر: Creative Touch Imaging/NurPhoto/picture alliance

3 اگست 2014 کی علی الصبح انتہا پسند گروہ 'اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجوؤں نے شمالی عراق میں ایزدی کمیونٹی کے خلاف لرزہ خیز  کارروائی کا آغاز کیا تھا۔

ان کے آبائی علاقے میں داخل ہونے والے ان دہشت گردوں نے ایزدی مردوں کو موقع پر ہی قتل کر دیا جبکہ عورتوں اور بچوں کو حراست میں لے لیا تھا۔ ان میں سے ہزاروں کو  بطور غلام بھی فروخت کیا گیا۔

سن 2017 میں عراق کو ان انتہاپسندوں سے آزاد کرا لیا گیا تھا۔اس وقت  داعش کے زیادہ تر ارکان مر چکے ہیں یا قید میں ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کے کچھ جنگجو ابھی تک روپوش بھی ہیں۔ لیکن داعش کے خاتمے کے سات سال کا عرصہ بیت جانے کے باوجود ایزدی اب بھی انصاف کے منتظر ہیں۔

کچھ پیش رفت ہوئی ہے

شمالی عراق میں واقع ایزدی تعلیمی ادارے سنجار اکیڈمی کے سربراہ مراد اسماعیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔

اسماعیل کے بقول اہم بات یہ ہے کہ زندہ بچ جانے والے ایزدیوں کو بیرون ممالک آباد کیا گیا اور داعش کے سابق ارکان کے خلاف بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے۔

عراق: داعش کے رہنما ابوبکر البغدادی کی بیوہ کو سزائے موت

موصل میں زندگی پھر عروج پر

اس کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر یہ تسلیم بھی کیا گیا کہ داعش نے ایزدی افراد کی نسل کشی کی۔ عراقی حکومت کی طرف سے ایک قانون منظور کیا گیا، جس کے تحت زندہ بچ جانے والی ایزدی خواتین کو ماہانہ پانچ سو ڈالر بھی دیے جاتے ہیں۔

لیکن اسماعیل اور دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ داعش کے ہاتھوں پکڑے گئے تقریبا 7000 ایزدیوں میں سے 2600 سو ابھی تک لاپتہ ہیں۔ اب بھی آئے روز عراق بھر ملنے والی اجتماعی قبروں سے ایزدیوں کی لاشیں برآمد ہوتی رہتی ہیں۔

اسماعیل نے داعش کی جانب سے کیے جانے والے جرائم کے احتساب کے لیے بنائے گئے اقوام متحدہ کے تحقیقاتی ادارے UNITAD کی غیر متوقع بندش پر سنگین تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

اس ادارے نے سن 2018  کام کرنا شروع کیا تھا، جس کا بنیادی مقصد داعش کے جرائم کی تحقیقات کرنا تھا۔

انسانی حقوق کے اداروں کا کیا کہنا ہے؟

ایزدی افراد کی وکالت کرنے والی تنظیموں نے اقوام متحدہ کو تجویز دی ہے کہ وہ UNITAD  کی طرف سے جمع کردہ شواہد کو محفوظ رکھا جائے اور اس ادارے کی جگہ ایک اور خصوصی ٹریبونل تشکیل دیا جائے۔

ایڈوکیسی آرگنائزیشن یزدا کی ڈائریکٹر نتیا ناوروزوف نے کہا ہے کہ وہ چاہتی ہیں کہ عراق میں انصاف ہو۔

عراق میں بین الاقوامی جرائم پر مقدمہ چلانے کی اجازت دینے کے لیے ایک مسودہ قانون موجود ہے لیکن اسے ابھی تک منظور نہیں کیا گیا ہے۔ ناوروزوف کا اصرار ہے کہ عراقی حکام اپنے منصوبوں کے بارے میں شفاف نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''ہم پیغام دے رہے ہیں کہ UNITAD کو بند کرنے کے بعد  ہم انتظام سنبھال لیں گے۔ لیکن اعتماد کا فقدان ہے؟‘‘

سنجار اکیڈمی کے سربراہ اسماعیل کا بھی کہنا تھا کہ وہ جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ دنیا آگے بڑھ چکی ہے لیکن ایزدی وہیں کھڑے ہیں، انصاف کے متقاضی۔ انہوں نے کہا کہ بے شک داعش کا خاتمہ ہو چکا ہے لیکن اس انتہا پسند گروپ کی بربریت ابھی بھی ایزدیوں کے ذہن میں تازہ ہیں۔

کاتھرین شئیر (ع ب ⁄ ش ر)

یزیدی خواتین بارودی سرنگوں کی صفائی میں مصروف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید