1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

درد اُستاد ہے، ہم اس کے اچھے یا بُرے شاگرد ہیں!

22 مئی 2021

درد ایک ایسا استاد ہے، جو خوشی کے مقابلے میں کہیں قابل ہے۔ یہ استاد صرف ہماری نفسیاتی صحت کی ہی تربیت نہیں کرتا بلکہ ہماری عقل اور علم کو بڑھوتری دیتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3tnzS
Waqar Ahmad
تصویر: privat

اے سی کتنی دیر چلانا ہے اور کب پینا ڈول استعمال کرنی ہے یہ فیصلے ہمیں سوچ سمجھ کر کرنے ہوں گے۔

 ایک دردتھا دبے پاوں آتا تھا، جس کے ہاتھ میں سرخ چراغ ہوا کرتا تھا اور فیض صاحب کے دل کے دروازے پر دستک دیا کرتا تھا۔ فیض صاحب رات بسر کرنے کے لیے دل سے مکالمہ کرتے کہ

 کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہو گی۔

فیض صاحب درد کے قافلے کے لیے ٹھکانہ ڈھونڈتے تھے اور کہتے تھے کہ

ہزار درد شب آرزو کی راہ میں ہے

کوی ٹھکانہ بتاؤ کہ قافلہ اُترے

پھر زندگی کی شام ہوئی۔ سن 1984 کا زمانہ تھا، جب فیض نے درد کی رمز پہچانتے ہوئے فرمایا۔

بہت ملا نہ ملا زندگی سے غم کیا ہے

متاع درد بہم ہے تو یش و کم کیا ہے

فیض جیسے نابغہ کے بارے میں ہمیں یقین ہے کہ وہ یقیناﹰ درد کی قدر و قیمت اور اہمیت سے بہت پہلے سے واقف ہوں گے۔ آئیے فیض کے نسخہ ہائے وفا کے ساتھ ایک نفسیاتی تجربہ کریں۔ فرض کیجیے کہ فیض ایک 'مثالی زندگی‘ گزارتے۔ مثالی زندگی سے ہماری مراد وہی ہے، جو عام طور پر لی جاتی ہے یعنی درد سے سو فیصد دوری اور خوشی سے سو فیصد  قربت۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی مثالی زندگی کی صورت نسخہ ہائے وفا کا کتنے فیصد تخلیق ہو سکتا تھا۔ اگر میری رائے پوچھیں تو کہوں گا کہ نسخہ ہائے وفا کا ایک شعر بھی تخلیق نہ ہو پاتا۔

ہماری سیکھنے اور نت نئے علم حاصل کرنے میں درد اور خوشی بنیادی محرک ہیں۔ ہمارا اور دوسری انواع کا بنیادی رویہ درد سے فرار ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ درد ہمارے سیکھنے میں اگر بنیادی تحریک کا کردار ادا کرتا ہے تو اس سے فرار کس حد تک درست ہے اورکس حد تک غیر منطقی ہے؟ اس کا ایک سادہ سا مگر گہرا جواب تو ایک فلسفی نے دے رکھا ہے کہ ہر وہ درد، جو آپ کی موت کا باعث بن سکتا ہو، اس سے فرار لازم ہے۔ باقی تمام دردوں کو سہنا ہمیں مضبوط بناتا ہے۔

چند دن پہلے ایک دستاویزی فلم دیکھی۔ اس میں ایک نوجوان ایک ایسی بیماری کا شکار ہوتا ہے، جس میں اسے درد سہنا پڑھتا ہے۔ سائنسدان اس کے مرض کا علاج دریافت کر لیتے ہیں۔ نوجوان تندرست ہو جاتا ہے۔ اسے ہر ہفتے جسم کا مکمل خون تبدیل نہیں کروانا پڑتا۔ اب وہ تمام سرگرمیوں میں حصہ لے سکتا ہے۔ دستاویزی فلم میں اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے ذہن میں کبھی یہ خیال آیا کہ اگر اس بیماری کا علاج پہلے دریافت ہو چکا ہوتا تو تمہیں اس طویل اذیت سے نہ گزرنا پڑتا۔ نوجوان خاموش رہتا ہے۔ پھر تھوڑی دیر بعد چھت کوگھورتے ہوئے کہتا ہے،''لیکن میں پھر وہ نہ ہوتا، جو اب ہوں، میں وہ سب کچھ نہ سیکھ پاتا۔ مجھے اپنے اس ہونے سے پیار ہے۔  جو ہوا گزر گیا لیکن جو مجھ پرگزری وہ مجھ کو بنا گئی۔ مجھے خوشی کا مفہوم پتا چل گیا۔ میں اب جس طور خوشی کو محسوس کر سکتا ہوں اور جس طرح اب خوشی سے لطف اندوز ہو سکتا ہوں، ایسا اس بیماری میں مبتلا نہ ہونے کی صورت نہ ہو سکتا بلکہ بیماری کو منہا کر دینے کی صورت میں میں اپنا آپ ایک احمق شخص کی صورت میں دیکھتا ہوں، جو اپنے آپ میں کہیں گم ہے۔‘‘

ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو گرم ہوا نہ لگے۔ وہ مکمل طور پر درد سے محفوظ رہیں۔ ہم نے زندگی میں، جو سرد گرم دیکھا ہے، وہ بچے نہ دیکھیں۔ اس کا ایک نتیجہ ہمیں بہت واضح نظر آتا ہے کہ ایسے بچے جو کامیاب والدین کی اولاد ہوتے ہیں اور بہت محفوظ ماحول میں پرورش پائی ہوتی ہے وہ ہو سکتا ہے 'عملی زندگی‘ میں کامیاب بھی ہوں کارپویٹ یا پبلک سیکٹر میں اچھی نوکری بھی کر رہے ہوں لیکن ان سے گفتگو آپ کو چند ثانیوں میں یہ بتا دیتی کہ وہ ذہین نہیں ہیں۔ یہاں میں لفظ ذہانت کو وسیع معنوں میں استعمال کر رہا ہوں، جس میں جذباتی ذہانت وغیرہ شامل ہیں۔ ذہانت سے میری مراد وہ نتیجہ نہیں ہے، جو ہمیں آئی کیو کا پیمانہ استعمال کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔

جسمانی درد کو لیں۔ آپ جب کسی شخص کو درد سے لنگڑاتا دیکھتے ہیں تو اصل میں وہ ایک ایسے زاویے سے چل رہا ہوتا ہے، جس میں متاثرہ پٹھا کم متاثر ہوتا ہے اور اسے زیادہ نقصان نہیں پہنچتا۔ اسے یہ معلومات درد دے رہا ہے۔ فرض کیجیے وہ درد دور کرنے والی دوا پین کلر کھا لیتا ہے تو یہ معلومات اسے حاصل نہیں ہوں گی اور وہ بے علمی میں پٹھے کو کہیں زیادہ نقصان پہنچا لے گا۔ درد استاد ہے اور ہم نے ایک اچھے شاگرد کی طرح اس کی دی معلومات سے اپنے آپ کو بڑے نقصان سے محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔

یہ تمام جسمانی درد ہمیں نفسیاتی تربیت بھی فراہم کرتے ہیں۔ نفسیات میں ایسے کئی تجربے آپ کو ملیں گے۔ مثال کے طور پر انتہائی سرد پانی کی بالٹی میں زیادہ دیر ہاتھ رکھنے کے مقابلہ کو ہی لیں۔ وہ افراد، جنہوں نے زندگی میں سرد گرم اور اتار چڑھاو زیادہ دیکھے ہوتے ہیں، وہ ان لوگوں سے، جنہوں نے محفوظ ماحول میں پرورش پائی ہوتی ہے، سے اس مقابلے میں بازی لے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ نفسیاتی حوالے ان میں قوت برداشت کا زیادہ ہونا ہے۔

بچوں کی پرورش میں ایک آسودہ گھرانہ کوشش کرتا ہے کہ اس کے بچے کوئی خطرہ نہ مول لیں۔ کہیں کوئی الٹی سیدھی چھلانگ لگانے سے انہیں زخم نہ آ جائے۔ اور اگر کبھی ایسا چھوٹا حادثہ پیش آ بھی جائے تو بچے سے زیادہ گھر کے افراد اس قدر سسکیاں لیتے ہیں کہ بچہ یہ سمجھنا شروع کر دیتا ہے کہ وہ کسی بہت ہی بڑے حادثے سے دوچار ہو گیا ہے۔ ایسا بچہ کامیاب والد کی سفارش سے تو کہیں نوکری لینے میں کامیاب ہو جائے گا یا والد کے کامیاب کاروبار میں بطور مالک بیٹھنا شروع کر دے گا لیکن اسے اگر یہ مدد حاصل نہ ہو یعنی والد کی سفارش یا محنت حاصل نہ ہو اور اسے عام بچوں کے ساتھ مقابلہ کر کے زندگی میں کچھ حاصل کرنا پڑے تو بری طرح ناکام ہو جائے گا۔ جدید سہولیات کی افادیت سے انکار نہیں لیکن اعتدال بہترین حکمت عملی ہے۔ ایئر کنڈیشنر کے سائے میں ہر وقت بچوں کو اس غرض سے رکھنا کہیں ان کو پسینہ نہ آ جائے کوئی بہتر سوچ ہر گز نہیں ہے۔

درد سے مستقل فرار ہمیں نفسیاتی عارضوں میں مبتلاکر دیتا ہے۔ ڈپریشن جیسے امراض اچانک کیوں بڑھنا شروع ہوگئے ہیں جبکہ ماضی کے مقابلے میں ہمارا عمومی معیار زندگی کہیں بہتر ہوا ہے۔ ڈپریشن کا ذکر ہوا ہےتو اسی سے بات آگے بڑھاتے ہیں۔ ڈپریشن ایک ایسی کیفیت ہے، جس میں آپ کچھ بھی محسوس کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ ہم میں سے ہر کوئی اس کیفیت کا تھوڑی دیر کے لیے کئی دفعہ شکار ہوتا ہے۔ جب درد و غم تھپیڑے مارتا ہے تو ڈپریشن ایک مدافعتی نظام کے طور پر کچھ نہ محسوس کرنے کی کیفیت لے آتا ہے۔ لیکن یہ کیفیت اگر تادیر رہے تو نفسیات میں اس کو ڈپریشن یا بیماری کا نام دیا جاتا ہے۔

 یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ درد و غم کے تھپیڑوں کی قابل برداشت شدت ہرآدمی کے لیے مختلف ہوتی ہے۔ جس نے اتار چڑھاو دیکھے ہیں اور زیادہ گرم سرد سہا ہے، اس کی برداشت کی قوت کہیں زیادہ ہو گی اور ڈپریشن سے نکلنے میں اسے آسانی ہوگی۔ لیکن محفوظ ماحول میں پرورش پانے والے کا ذہن کسی عام ناخوشگوار واقعہ کی وجہ سے بھی ڈپریشن کا نفسیاتی مدافعتی نظام بروئے کار لے آئے گا۔

درد کا خوشی سے براہ راست تعلق ہے۔ ایک تو دماغ میں ان کو ڈیل کرنے والے حصے ایک ہی ہیں اور دوسرا یہ اس حد تک ایک دوسرے سے متعلق ہیں کہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کس کی سرحد کہاں ختم ہوتی ہے؟ آپ جب دوڑ میں حصہ لیتے ہیں یا کسی کھیل میں جان مارتے ہیں تو یہ سو فیصد درد کی کیفیت ہے۔ آپ خود اپنے ارادے سے کوشش کر کے یہ درد لیتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ کسی طور عقلی رویہ نہیں ہے۔ لیکن یہ درد ہمیں خوشی سے نواز رہا ہوتا ہے اور اسی حوالے سے یہ عقلی رویہ ہی کہلایا جائے گا۔

آپ جانتے ہیں کہ جب آپ کا ہاتھ جل جائے یا اچانک زخم لگ جائے تو دنیا جہاں کے کام بھول کر آپ سو فیصد توجہ اپنے زخم کو دیتے ہیں۔ آپ بھول جاتے ہیں کہ کل کیا ہوا تھا یا آنے والے کل کیا ہو گا؟ آپ گزرے کل کے ملال اور آنے والے کل کے اندیشوں کو یکسر بھول کر لمحہ حال میں آ جاتے ہیں۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ صوفیا میں ایک اصطلاح ''صاحب حال‘‘ استعمال ہوتی ہے۔ اور اگر یہ سب آپ جانتے ہیں تو تاریخ میں ان صوفیا جوگیوں کو بھی جانتے ہوں گے، جو اپنے آپ کو درد میں مبتلا رکھتے تھے۔ ایک ٹانگ پر ساری رات کھڑا ہو کر ارتکازکرنا یا صبح سویر سرد برفیلے پانی سے نہانا۔ صوفی روایت میں اپنے آپ کو درد سے روشناس کروا کر ارتکاز کرنا تاریخ میں عام سی بات رہی ہے۔

چلیے آخر پر ایک واقعہ پڑھ لیجیے۔ میں اور دادا گدھے پر سوار جا رہے تھے۔ میری عمر شاید سات آٹھ سال تھی۔ گدھے کو کسی مکھی یا بھڑ نے کاٹا۔ گدھا بدکا اور اس نے دوڑ لگانی شروع کر دی۔ دادا نے گدھے کو قابوکرنے کی بہت کوشش کی لیکن گدھا پگڈنڈی چھوڑ کر کھیتوں میں بھاگا جا رہا تھا۔ میں اس اچھل کود سے شدید خوفزدہ تھا۔ گدھے کی یہ دوڑ تقریبا ایک کلومیٹر رہی کہ گدھے نے دوڑتے ہوئے اپنے آپ کو ایک طرف یوں جھکایا کہ دادا اور میں توازن نہ رکھ سکے اور زمین پر یوں گرے کہ دادا پہلے زمین پر گرے اور میں ان کے اوپر گرا۔ میری طبیعت اس قدر خراب ہوئی کہ مجھے قے آ گئی۔ دادا پہلے ہی پریشان تھے، میری یہ حالت دیکھ کر غصے میں آ گئے اور کہا کہ تم میرے اوپر گرے ہو میں تمہارے اوپر نہیں گرا اور تمہیں کوئی چوٹ بھی نہیں لگی تو کس قدر بزدل ہو تم گدھے کہیں کے۔

ہو سکتا ہے آپ کو دادا کا یہ رویہ معقول نہ لگا ہو لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ گدھا تو بھاگ کر ڈھوک پر پہنچ گیا تھا، دادا اپنے چھوٹے گدھے یعنی میرے ساتھ پیدل ڈھوک کی جانب رواں تھے اور چھوٹا گدھا دادا کی انگلی پکڑے شرمندگی کے مارے یہ سوچ رہا تھا کہ میں کیوں ڈر گیا تھا؟ یقیناﹰ مجھے نہیں ڈرنا چاہیے تھا، مجھے اپنے آپ کو مضبوط بنانا ہو گا۔ میں نے دادا کو تکلیف دی ہے، آئندہ میں بہت مضبوط دل والا بچہ بنوں گا۔

تو یوں ایک دادا نے اپنے پیارے پوتے کو درد سہنے اور اسے برداشت کرنے کا سبق دیا۔ مضمون کے یہ الفاظ لکھتے ہوئے یوں لگ رہا ہے کہ زندگی گدھے کی مانند تھپیڑے دیتی چلی جا رہی ہے اور میں ننھے ہاتھوں میں کاشت کار دادا کی موٹی انگلی پکڑے اعتماد کے ساتھ پیدل چل رہا ہوں۔