1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آزادی صحافت

درجنوں پاکستانی صحافیوں کا قتل، کسی قاتل کو سزا نہ ملی

2 نومبر 2019

پاکستان میں صحافت سے متعلق تازہ ترین امپیونٹی رپورٹ کے مطابق گزشتہ چھ برسوں میں 33 پاکستانی صحافی قتل کر دیے گئے مگر سبھی قاتل سزا سے بچ گئے۔

https://p.dw.com/p/3SMc9
Pakistan Journalisten Mord Pressefreiheit Medien
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A.Naveed

صحافیوں کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کے سزاؤں سے بچ جانے کے خلاف ورلڈ امپیونٹی ڈے ہر سال دو نومبر کو منایا جاتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں اس دن کی مناسبت سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا کا یہ ملک اور اس کا قانونی نظام صحافیوں کی جانیں بچانے اور اظہار رائے کی آزادی کو آئینی ضمانتوں کے باوجود تحفظ دینے میں ناکام رہا ہے۔

2013ء سے لے کر 2019ء تک پاکستان بھر میں اپنی صحافتی ذمہ داریاں نبھانے کی پاداش میں جن 33 صحافیوں کو قتل کر دیا گیا، ان میں گزشتہ ایک سال کے دوران مارے جانے والے سات جرنلسٹ بھی شامل ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی ایک بھی صحافی کے قاتلوں کو سزا نہ ملی اور مقتولین کے لواحقین بھی انصاف سے محروم ہی رہے۔

یہ پریشان کن اعداد و شمار ورلڈ امپیونٹی ڈے کے موقع پر پاکستان میں میڈیا کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی اس تازہ رپورٹ میں بتائے گئے ہیں، جس کا عنوان ہے: قاتلوں کو سو فیصد معافی اور مقتول صحافیوں کو صفر فیصد انصاف۔ اس رپورٹ میں پاکستان امپیونٹی اسکور کارڈ دو ہزار انیس کے نام سے شامل کردہ اعداد وشمار کے مطابق رواں برس مارے جانے والے سات صحافیوں سمیت پاکستان میں دو ہزار تیرہ سے دو ہزار انیس تک مجموعی طور پر جو تینتیس صحافی قتل ہوئے، ان میں سے پولیس نے بتیس کے بارے میں باقاعدہ قانونی رپورٹیں یا ایف آئی آر درج کیں۔

Journalisten protestieren in Pakistan Pressefreiheit Zensur
رپورٹ کے مطابق پاکستان اور اس کا قانونی نظام صحافیوں کی جانیں بچانے اور اظہار رائے کی آزادی کو آئینی ضمانتوں کے باوجود تحفظ دینے میں ناکام رہا ہے۔تصویر: picture-alliance/dpa/A.Arbab

ان بتیس قانونی رپورٹوں کے اندراج کے بعد پولیس صرف بیس مقدمات کے چالان مکمل کر سکی۔ چالانوں کی تکمیل کی یہ شرح ساٹھ فیصد بنتی ہے۔ پھر جن مقدمات پر عدالتی کارروائی مکمل ہوئی، ان چھ میں سے محض ایک مقدمے میں مشتبہ قاتل کو مجرم ٹھہرایا گیا۔ لیکن یہ مجرم بھی عدالتی اپیل کے مرحلے میں سزا سے بچ نکلا۔ یوں ان تین درجن کے قریب مقتول پاکستانی صحافیوں کے اہل خانہ کو انصاف کی فراہمی کی شرح صفر رہی۔


پاکستان کا منفی ورلڈ ریکارڈ

فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ صحافیوں کے خلاف قتل اور دیگر جرائم کے بعد مجرموں کے سزاؤں سے بچ جانے کی پاکستان میں نظر آنے والے شرح دنیا میں اپنی نوعیت کی بلند ترین ہے۔

اقبال خٹک نے کہا، ''یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ جہاں ایک بھی صحافی قتل نہیں ہونا چاہیے تھا، وہاں گزشتہ چھ برسوں میں تینتیس صحافی مارے جا چکے ہیں۔ پھر ان تینتیس میں سے صرف بیس مقدمات عدالتوں تک پہنچے۔ یعنی پولیس چالیس فیصد واقعات میں تو چالان ہی مکمل نہ کر سکی۔ تو جب ایسے مقدمات عدالتوں میں جائیں گے ہی نہیں، تو انصاف کو یقینی کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ المیہ یہ ہے کہ ریاست کو اس بات کی پرواہ ہی نہیں کہ پاکستان میں کتنے زیادہ صحافیوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔‘‘

پاکستان میں ایسے جرائم میں قانونی نظام متاثرین کو انصاف کیوں نہیں دے پاتا، اس بارے میں ماہر قانون آفتاب عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کے دو ہزار بارہ میں آنے والے صحافیوں کے تحفظ کے ایکشن پلان کو صرف ایک سال بعد ہی اپنا لیا تھا لیکن اس ایکشن پلان کے تحت ریاست پر جو ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں، وہ آج تک پوری نہیں کی گئیں۔

قبائلی علاقوں میں صحافیوں کو درپیش مشکلات

آفتاب عالم نے، جو اظہار رائے اور اطلاعات تک رسائی کے امور پر کام کرنے والی ارادہ نامی تنظیم کے سربراہ بھی ہیں، مزید کہا کہ اسے بظاہر ریاست کی ناکامی کہا جا سکتا ہے کہ وہ نہ تو اپنے شہریوں، خاص کر صحافیوں کی زندگیاں بچانے میں کامیاب رہی اور نہ ہی ایسے جرائم کے مرتکب مجرموں کو سزائیں دینے سے متعلق اپنی قانونی ذمے داریاں پورا کر سکی۔

غیر حکومتی تنظیم ارادہ کے سربراہ آفتاب عالم نے مزید کہا کہ پاکستان میں صحافی پچھلے کئی برسوں سے اظہار رائے کا حق استعمال کرنے کی پاداش میں مسلسل ہدف بنائے جا رہے ہیں: ''حکومتیں قانونی اصلاحات کے دعوے کرتی ہیں، نظام انصاف میں کچھ اصلاحات ماضی میں کی بھی گئی ہیں، لیکن صحافیوں کو انصاف کی فراہمی سے متعلق فرائض میں کوتاہی پھر بھی کی جاتی ہے۔‘‘

پاکستانی صحافیوں کو درپیش پیچیدہ صورت حال

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ صحافیوں کو عمومی مسائل کا سامنا تو دنیا بھر میں ہے، تاہم پاکستان میں صورتحال انتہائی افسوسناک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں آزادی رائے کو درپیش خطرات کے ساتھ ساتھ میڈیا کارکنوں کو جان و مال دونوں کا خطرہ بھی ہے اور بے روزگاری کے مسائل بھی شدید ہوتے جا رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان تینتیس مقتول صحافیوں سمیت حکومت سینکڑوں دیگر متاثرین کی آواز سننے کو بھی تیار نہیں ہے: ''فرنٹ لائن صحافی خبروں اور حقائق کو سامنے لاتے ہیں، جو اس لیے خطرناک کام ہے کہ پاکستان میں ایسے پیشہ ورانہ کام کے باعث صحافیوں کو قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔‘‘

Pakistan Journalisten Mord Pressefreiheit Medien
2013ء سے لے کر 2019ء تک پاکستان بھر میں اپنی صحافتی ذمہ داریاں نبھانے کی پاداش میں جن 33 صحافیوں کو قتل کر دیا گیا۔تصویر: picture-alliance/dpa/T.Mughal

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں موجودہ حالات میں ریاست اور سول سوسائٹی کے مابین مکالمے کی اشد ضرورت ہے اور حکمران حلقوں کو یہ بتایا جانا ضروری ہے کہ کوئی ریاست اس وقت تک مستحکم ہو ہی نہیں سکتی، جب تک وہاں اظہار رائے کی آزادی نہ ہو۔ حارث خلیق کے مطابق صحافیوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے ایسے پریشر گروپ بنائیں جو ان کے مسائل کو بہتر طور پر سامنے لا سکیں اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کو بھی خود کو دھڑے بندی سے نکال کر مزید مضبوط اور متحد بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ صحافیوں کے بنیادی حقوق کے لیے مؤثر تر جدوجہد کر سکے۔

سب سے بڑا ٹارگٹ پرنٹ میڈیا

فریڈم نیٹ ورک کی اس تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں مختلف ٹی وی چینلز، آن لائن میڈیا اداروں اور ریڈیو اسٹیشنوں کے مقابلے میں پرنٹ میڈیا سب سے بڑا ٹارگٹ ہے۔ تینتیس مقتول صحافیوں میں سے انیس کا تعلق پرنٹ میڈیا سے تھا۔ اسی طرح علاقائی سطح پر گزشتہ چھ برسوں کے دوران سب سے زیادہ صحافی صوبہ خیبرپختونخوا میں قتل ہوئے، جن کی تعداد گیارہ تھی۔

اس امپیونٹی رپورٹ میں پاکستان میں صحافیوں کے خلاف جرائم کی روک تھام، ان کے تحفظ اور مجرموں کو سزائیں دلوانے کے لیے کئی تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں۔ ان میں صحافیوں کی حفاظت کے لیے خصوصی وفاقی اور صوبائی قوانین کا نفاذ، صحافیوں کی حفاظت سے متعلق خصوصی وفاقی اور صوبائی پراسیکیوٹرز کی تقرری اور میڈیا اداروں کے سالانہ سکیورٹی آڈٹ جیسی تجاویز بھی شامل ہیں۔

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔