درجنوں اسرائیلی فوجیوں کا غزہ میں لڑنے سے مشروط انکار
14 جنوری 2025خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق غزہ کی جنگ میں مزید حصہ نہ لینے سے متعلق اسرائیلی فوجیوں کا یہ خط ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب اسرائیل اور حماس پر لڑائی ختم کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ فائر بندی کے لیے بات چیت جاری ہے، اور امریکی صدر جو بائیڈن اور نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ دونوں نے 20 جنوری سے قبل کسی سیزفائر معاہدے تک پہنچنے پر زور دیا ہے۔
غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد ریکارڈ سے 40 فیصد زیادہ، لینسیٹ
جن اسرائیلی فوجیوں نے اس خط پر دستخط کیے ہیں، ان میں سے سات نے اپنے انکار کی وجوہات پر اے پی سے بات چیت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ فلسطینیوں کو ''بے دریغ مارنے اور ان کے مکانوں کو نذر آتش کرنے‘‘ کے حق میں نہیں ہیں۔ کئی فوجیوں نے بتایا کہ انہیں ایسے گھروں کو بھی، جن سے کوئی خطرہ نہیں تھا، جلانے یا گرانے کا حکم دیا گیا تھا اور انہوں نے ''فوجیوں کو لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کرتے‘‘ بھی دیکھا۔
لڑنے سے مشروط انکار کرنے والے فوجیوں کا کہنا ہے کہ خط پر اگرچہ 200 دستخط ہیں لیکن اور بھی بہت سے فوجی ان کے خیالات سے متفق ہیں۔
’قتل کا ناقابل فراموش منظر‘
غزہ پٹی میں لڑنے سے انکار کرنے والے ایک افسر 28 سالہ یوتم ولک کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں ایک نہتے فلسطینی نوجوان کے 'قتل کا منظر‘ ان کے ذہن پر نقش ہو کر رہ گیا ہے۔
غزہ کے ہیومینیٹیرین زون میں اسرائیلی حملہ، گیارہ ہلاکتیں
انہوں نے اے پی کو بتایا کہ غزہ میں اسرائیل کے زیرقبضہ بفر زون میں داخل ہونے والے کسی بھی غیر مجاز شخص کو گولی مار دینے کا حکم ہے۔ یوتم کا کہنا تھا کہ انہوں نے کم از کم 12 افراد کو بفر زون میں فائرنگ سے زخمی ہوتے دیکھا ہے۔
ولک ان اسرائیلی فوجیوں میں شامل ہیں، جو پندرہ ماہ سے جاری اس تنازعے کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس لڑائی کے دوران ایسی چیزیں دیکھیں یا کی ہیں، جو ان کی نظر میں 'غیر اخلاقی‘ تھیں۔
ولک کا کہنا تھا کہ جب وہ نومبر 2023 میں غزہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے سوچا تھا کہ طاقت کا ابتدائی استعمال دونوں فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لا سکتا ہے۔ لیکن جنگ طول پکڑ گئی۔ ولک نے مزید کہا کہ انہوں نے انسانی زندگی کی قدروں کو بکھرتے دیکھا ہے۔
اسرائیلی فوج کے طبی شعبے سے وابستہ 27 سالہ یووال گرین نے غزہ میں دو ماہ گزارنے کے بعد گزشتہ جنوری میں فوج کو چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے وہاں جو کچھ ہوتے ہوئے دیکھا، اس کے ساتھ وہ زندگی نہیں گزار سکتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ فوجیوں نے گھروں کی بے حرمتی کی۔ ہسپتالوں کو نقصان پہنچایا۔ لوٹ مار کی، ''حتٰی کہ وہ عبادت گاہوں تک سے چیزیں لوٹ کر لے گئے۔‘‘
حماس بھی ہلاکتوں کی ذمہ دار
ولک کا یہ بھی کہنا تھا کہ کچھ ہلاکتوں کی ذمہ دار حماس بھی ہے۔ ایک گرفتار فلسطینی نے بتایا تھا کہ حماس نے کچھ لوگوں کو بفر زون میں جانے کے لیے 25 ڈالر فی کس دیے تھے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ اسرائیلی فوج کا ردعمل کیا ہو گا۔
حماس نے 34 یرغمالیوں کے بارے میں تفصیلات نہیں دیں، اسرائیل
ولک کہتے ہیں کہ بفر زون میں آنے والوں کو مارنے سے پہلے فوج نے انتباہی گولیاں بھی چلائی تھیں، لیکن ان کا خیال ہے کہ 'نہتے لوگوں‘ کو ہلاک کرنے میں جلدی کی گئی۔
کچھ فوجیوں نے اے پی کو بتایا کہ انہوں نے غزہ میں جو کچھ ہوتے ہوئے دیکھا، اسے ذہنی طور پر قبول کرنے میں وقت لگا۔ کئی دوسرے فوجیوں نے کہا کہ بعض واقعات ایسے تھے کہ ان کا فوری طور پر فوج کی نوکری چھوڑ دینے کو دل چاہا۔
لیکن فوج میں ایسے لوگ بھی ہیں جو جنگ سے انکار کی تحریک کی مخالفت کر رہے ہیں۔
اسرائیلی فوج کا ردعمل
اسرائیلی فوج نے اے پی کو بتایا کہ وہ فوجی خدمات انجام دینے سے انکار کرنے کی مذمت کرتی ہے۔ اپنے ایک بیان میں فوج نے کہا ہے کہ ایسے فوجیوں کو جیل بھیجا جا سکتا ہے۔ تاہم ابھی تک کسی کو بھی حراست میں نہیں لیا گیا۔
اسرائیلی فوج نے بتایا کہ اس سلسلے میں ہر کیس کو انفرادی طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اسرائیل میں جنگ کے طول پکڑنے کے ساتھ اس پر تنقید بڑھ رہی ہے۔ لیکن ملک کے اندر زیادہ تر تنقید یرغمالیوں کو واپس لانے کے لیے فائر بندی پر مرکوز ہے۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں اسرائیل پر غزہ میں جنگی جرائم اور بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا الزام لگا چکی ہیں۔ بین الاقوامی عدالت انصاف جنوبی افریقہ کی طرف سے عائد کردہ بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے الزامات کی تحقیقات کر رہی ہے، اور وہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کر رہی ہے۔
لیکن اسرائیل کاغیر معمولی تعداد میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ فوج کبھی بھی جان بوجھ کر شہریوں کو نشانہ نہیں بناتی اور فلسطینی شہری آبادی کے پہنچنے والے نقصانات کو کم سے کم رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جاتے ہیں۔
ج ا ⁄ ع ا، م م ( اے پی)