1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردیمشرق وسطیٰ

داعش کے سربراہ کی ہلاکت کے بعد نیا سربراہ کون بنا ہے؟

1 دسمبر 2022

جہادی گروپ اسلامک اسٹیٹ (داعش) نے اپنے سربراہ ابو الحسن الہاشمی القریشی کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے نئے قائد کی تقرری کا اعلان کیا ہے، تاہم پہلے کی طرح ہی ان کے بارے میں زیادہ تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4KK9V
Syrien Hassakeh | US-Verbündere suchen nach Kämpfern des IS
تصویر: Baderkhan Ahmad/AP/picture alliance

نام نہاد اسلامی شدت پسند گروپ اسلامک اسٹیٹ (داعش) کے ترجمان کی طرف سے 30 نومبر بدھ کے روز جاری ایک آڈیو پیغام میں گروپ کے سربراہ ابو الحسن الہاشمی القریشی کی موت کی تصدیق کی گئی اور کہا گیا کہ وہ 'دشمن' سے لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے۔ تاہم اس کی مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔

ترکی کے حملے امریکی قیادت میں داعش کے خلاف کارروائیوں میں رکاوٹ

ادھر امریکہ نے کہا کہ داعش کے سربراہ ابو الحسن الہاشمی القریشی اکتوبر کے وسط میں ہی جنوب مغربی شام میں باغی گروپ 'فری سیریئن آرمی' کے ایک آپریشن میں مارے گئے تھے۔ انہوں نے رواں برس مارچ میں اس وقت گروپ کی قیادت سنبھالی تھی، جب ان کے پیشرو نے شمال مغربی شام میں امریکی افواج کے حملے کے دوران خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا۔

آسٹریلیا نے شام کے پناہ گزیں کیمپوں سے اپنے شہریوں کو واپس بلا لیا

داعش کے ترجمان نے ان کی جگہ نئے سربراہ کا اعلان بھی کیا ہے تاہم ان کا نام بھی ہو بہو ابو الحسین الحسینی القریشی ہی بتایا گیا ہے۔ پچھلے اعلان کی طرح ہی ترجمان نے اس بار بھی ان کا اصل نام، قومیت یا پس منظر ظاہر کرنے سے گریز کیا۔

فن لینڈ نے شام میں محصور بچوں کے حقوق پامال کیے، اقوام متحدہ

بیان میں ابو الحسین کو ''ایک تجربہ کار مجاہد'' بتایا گیا ہے اور گروپ کے حامیوں پر زور دیا گیا کہ وہ ان کی بیعت کریں۔

ابو الحسن کے بارے میں بہت کم لوگوں کو کچھ معلوم ہے اور بطور قائد ان کی جانب سے کبھی کوئی بیان بھی جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم حریف جہادی گروپ القاعدہ کے حامی اور آئی ایس مخالف ایک ٹیلیگرام چینل نے بتایا ہے کہ وہ ''کچھ عرصے پہلے'' ہی مارے جا چکے ہیں۔

ادھر امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ سابق سربراہ ابو الحسن الہاشمی القریشی کو جنوب مغربی شامی صوبے درعا میں فری سیرین آرمی نے ہلاک کیا تھا، جس کا تعلق ملک کی خانہ جنگی میں صدر بشار الاسد کا تختہ پلٹنے کے لیے سرگرم باغی دھڑوں کے ایک گروپ سے ہے۔

Irak | Sicherheitkräfte in Mosul
ایک اندازے کے مطابق شام اور عراق میں 6,000 سے 10,000 کے درمیان داعش کے جنگجو موجود ہیںتصویر: Oliver Weiken/dpa/picture alliance

ایک فوجی ترجمان نے مزید کہا کہ اس آپریشن میں امریکی افواج شامل نہیں تھیں۔ اس سے قبل امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا تھا "ہم اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ (آئی ایس)  کا ایک اور رہنما اب زمین پر نہیں چل رہا ہے۔''

داعش اب بھی ایک خطرہ

نام نہاد اسلامی شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ (داعش) نے ایک وقت مشرقی عراق سے مغربی شام تک پھیلے ہوئے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور تقریباً 80 لاکھ افراد پر اپنی ظالمانہ حکومت بھی مسلط کر رکھی تھی۔

تاہم اس کے خلاف جنگ لڑی گئی اور سن 2019 میں اس گروپ کو اس کے آخری گڑھ سے بھی نکال دیا گیا تھا۔ تاہم جولائی میں اقوام متحدہ نے خبردار کیا تھا کہ یہ گروپ اب بھی ایک مستقل خطرہ ہے۔

ایک اندازے کے مطابق شام اور عراق میں 6,000 سے 10,000 کے درمیان داعش کے جنگجو موجود ہیں، جو زیادہ تر دیہی علاقوں میں رہتے ہیں اور وہ گھات لگا کر حملے کرنے اور سڑک کے کنارے بم دھماکے جیسی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ویسے تو اس تنظیم کا نیٹ ورک دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے، تاہم سب سے زیادہ مضبوط اور اچھی طرح سے قائم نیٹ ورک افغانستان، صومالیہ اور لیک چاڈ جیسے علاقوں میں ہے۔ 

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی)

داعش کی رکن کے والد اپنی بیٹی، نواسے کی واپسی کے لیے پر امید