1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داعش کی جنسی زیادتیوں سے پیدا ہونے والے بچے کہاں جائیں؟

1 مئی 2019

ایزدی مذہبی حکام نے اپنا وہ فیصلہ واپس لے لیا ہے، جس کے مطابق وہ داعش کے عسکریت پسندوں کی جنسی زیادتیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو قبول کر لیں گے۔ بچے تو معصوم ہیں لیکن کئی انہیں نسل کشی کی علامت قرار دیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3HlRT
Irak Duhok - Yazidi überlebenden treffen Verwandte nach Freilassung vom IS in Syrien
تصویر: Reuters/A. Jalal

گزشتہ ہفتے ’ایزدی سپریم روحانی کونسل‘ نے اعلان کیا تھا کہ وہ داعش یا ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے مظالم اور جرائم سے بچ جانے والے ’تمام افراد‘ کو قبول کر لیں گے۔ اس اعلان کے بعد یہ بحث شروع ہو گئی تھی کہ داعش کے عسکریت پسندوں نے، جن ایزدی خواتین کو جنسی زیادتی کرتے ہوئے حاملہ کر دیا تھا، ان کے بچوں کو شمالی عراق کی اس مذہبی اقلیت میں کیسے ضم کیا جائے گا؟

اب اس مذہبی کونسل کے رہنماؤں نے گزشتہ ہفتے کے بیان سے پہلو تہی کرتے ہوئے کہا  ہے کہ ’ریپ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو نہیں بلکہ ان ایزدی والدین کے بچوں کو قبول کیا جائے گا، جنہیں داعش نے یرغمال بنا لیا تھا۔‘‘

اس فیصلے کے خلاف داعش کے چُنگل سے آزاد ہونے والی نوبل انعام یافتہ ایزدی خاتون نادیہ مراد کا ایک ویڈیو پیغام سامنے آیا ہے، جس میں ان کا کہنا ہے، ’’داعش سے بچ جانے والوں سے متعلق فیصلہ کرنے کا حق صرف اور صرف متاثرہ افراد کے خاندانوں کو ہے۔ جن کا کسی سے کوئی تعلق نہیں، انہیں ان سے متعلق فیصلہ کرنے کا کوئی حق بھی حاصل نہیں ہے۔‘‘

نادیہ مراد کا مزید کہنا تھا، ’’اگر  وہ (ایزدی خواتین) اپنے بچوں کے ساتھ واپسی کا فیصلہ کرتی ہیں، تو ہمیں بطور معاشرہ ان کے فیصلے کا احترام کرنا چاہیے، انہیں خوش آمدید کہنا چاہیے اور جہاں تک ہو سکے ان کی مدد کرنی چاہیے۔‘‘

Irak Duhok - Yazidi überlebenden treffen Verwandte nach Freilassung vom IS in Syrien
داعش کے زیر قبضہ علاقے سے فرار ہونے والی ایک ایزدی خاتون اپنے بچے کے ہمراہتصویر: Reuters/A. Jalal

لندن اسکول آف اکنامکس مڈل ایسٹ ریسرچ سینٹر کی ریسرچ فیلو زینب کایا کے مطابق، ’’سن دو ہزار چودہ کے بعد سے تقریبا 35 سو ایزدی خواتین داعش کے زیر قبضہ علاقوں سے فرار ہو کر واپس پہنچی ہیں اور ان میں سے دو سو تک خواتین کے بچے ہیں۔‘‘

سابق عراقی رکن پارلیمان اور ایزدیوں کے حقوق کے لیے مہم چلانے والی خاتون آمنہ سعید کا بھی ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ حق اہلخانہ کے پاس ہونا چاہیے کہ وہ بچوں کی قسمت کا فیصلہ کریں، ’’ایک ماں کے طور پر میں جانتی ہوں کہ ان خواتین کے جذبات کیا ہوں گے؟ دوسری جانب میں کمیونٹی کے ردعمل کو بھی سمجھ سکتی ہوں کیوں کہ میں بھی اسی کا حصہ ہوں۔ لیکن  یہ خود مظلوم ہیں اور اگر ان پر دروازے بند کر دیے جائیں گے تو اس طرح انہیں دوہری سزا دی جائے گی۔‘‘

ایزدی کمیونٹی میں روایتی طور پر غیر ایزدیوں سے شادیوں کو قبول نہیں کیا جاتا۔ صرف انہی مرد و خواتین کو کسی ایزدی سے شادی کرنے کی اجازت فراہم کی جاتی ہے، جو ایزدی مذہب اختیار کر لیتے ہیں۔ اس کمیونٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ ایسا اپنی شناخت کا برقرار رکھنے کے لیے کرتے ہیں، جسے ماضی میں متعدد مرتبہ مٹانے کی کوشش کی جا چکی ہے۔

ایزدی کون ہیں؟

ایزدی نسلی اعتبار سے کرد ہیں اور کرد زبان کی تین بڑی بولیوں میں سے ایک کُرمانجی بولتے ہیں۔ ایزدی اقلیت کے اراکین شام، ایران، عراق اور ترکی کے کرد علاقوں میں آباد ہیں۔ دنیا بھر میں اس اقلیت کے اراکین کی مجموعی تعداد تقریباً آٹھ لاکھ بتائی جاتی ہے، جن کی بڑی تعداد عراق میں آباد ہے۔

 عراق میں ایزدی آبادی شہر موصل کے آس پاس دو علاقوں میں موجود ہے۔ عراق کے ساڑھے پانچ لاکھ ایزدیوں کا مذہبی مرکز شمالی عراق کی للیش وادی ہے، جہاں ایزدیوں کی مقدس ترین شخصیت شیخ عدی بن مسافر کا مزار بھی واقع  ہے۔ ایزدیوں کی ایک بڑی تعداد مغربی یورپ میں بھی آباد ہے، جہاں ان کی سب سے بڑی تعداد جرمنی میں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق جرمنی میں  45 تا 60 ہزار ایزدی باشندے آباد ہیں۔

ایزدی کمیونٹی کی پیچیدہ تاریخ

ایزدی مذہب کے بارے میں مختلف طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں۔ خود ایزدی اپنے آپ کو ایک قدیم ایرانی فرقے کا تسلسل قرار دیتے ہیں۔ مذہبی محققین کا کہنا یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس اقلیت نے مختلف مذاہب سے استفادہ کرتے ہوئے اُن کے عقائد کو اپنے عقائد میں شامل کیا ہے۔ اس لیے جہاں ایک طرف اس میں مسیحی عقیدے کی مختلف جھلکیاں ملتی ہیں، وہاں بہت سی چیزوں میں اسلام کی بھی جھلک نظر آتی ہے۔ یہودیت، مسیحیت اور اسلام کی طرح ایزدی بھی وحدانیت پر یقین رکھتے ہیں۔ ایزدی خدا کے وجود کے علاوہ مزید کسی بھی طرح کی قوتوں مثلاً شیطان کو نہیں مانتے۔

تینوں بڑے مذاہب کے برعکس ایزدیوں کی کوئی مقدس کتاب نہیں ہے بلکہ اُن کی روایات زیادہ تر سینہ بہ سینہ اُن تک پہنچی ہیں۔ عثمانی دور میں ایزدیوں کو ’شیطان کی پوجا کرنے والے‘ سمجھا جاتا تھا۔ اُنیس ویں صدی کے اواخر میں عراق میں کئی بار مسیحی اور ایزدی آبادی کا قتلِ عام کیا گیا۔

’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجو بھی ایزدیوں کو کسی باقاعدہ مذہب کا حصہ نہیں سمجھتے اور یہ موقف رکھتے ہیں کہ اُنہیں یا تو زبردستی دائرہء اسلام میں داخل کیا جانا چاہیے یا پھر وہ واجب القتل ہیں۔