1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبر پختونخوا میں سات سال میں 128 ٹرانس جینڈر افراد کا قتل

فریداللہ خان، پشاور
12 مئی 2024

پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں ٹرانس جینڈر افراد کو آج بھی شدید مشکلات اور خطرات کا سامنا ہے۔ اس کمیونٹی کے معاشرے کے مرکزی دھارے میں شامل کیے جانے کی جدوجہد میں سیاسی جماعت اے این پی نے اب ایک منفرد قدم اٹھایا ہے۔

https://p.dw.com/p/4flAe
پشاور میں ٹرانس جینڈر افراد کی ایسوسی ایشن کی صدر کے مطابق گزشتہ برسوں میں مجموعی طور پر سینکڑوں ٹرانس جینڈر باشندے مسلح حملوں میں زخمی ہو چکے ہیں
پشاور میں ٹرانس جینڈر افراد کی ایسوسی ایشن کی صدر کے مطابق گزشتہ برسوں میں مجموعی طور پر سینکڑوں ٹرانس جینڈر باشندے مسلح حملوں میں زخمی ہو چکے ہیںتصویر: Faridullah Khan

خیبر پختونخوا میں حالیہ برسوں میں قتل کر دیے جانے والے ٹرانس جینڈر افراد کے قاتلوں میں سے شاید ہی کوئی گرفتار کیے جا سکے ہوں۔ گزشتہ سات برسوں میں اس صوبے میں 128 ٹرانس جینڈر شہری قتل کر دیے گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے جبکہ پشاور میں ایسے تین افراد معذور بھی ہو گئے۔ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے علاوہ خود اپنے ہی خاندان کے ارکان کے ہاتھوں قتل ہو جانے کے خوف سے سینکڑوں ٹرانس جینڈر افراد نے پشاور میں پناہ لے رکھی ہے۔ تاہم پشاور بھی ان کے لیے کوئی محفوظ شہر نہیں۔ ان پر مسلسل حملے کیے جاتے ہیں۔

بنگلہ دیش میں ٹرانس جینڈر افراد کی پہلی مسجد

سال رواں کے دوران اب تک سات ٹرانس جینڈر شہری قتل کیے جا چکے ہیں تاہم قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کے قاتلوں کو گرفتار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ایسے چند مقامی شہری تو اپنی جانیں بچانے کے لیے یورپ یا دبئی شفٹ ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں ٹرانس جینڈر شہری خود کو صرف غیر محفوظ ہی تصور نہیں کرتے بلکہ انہیں رہائش، صحت، تعلیم اور روزگار کی تلاش کے سلسلے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پشاور میں صوبائی حکومت نے کئی بار انہیں تحفظ کے ساتھ ساتھ صحت اور روزگار کی سہولیات کی فراہمی کے اعلانات تو کیے لیکن ان اعلانات کو آج تک عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔

عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے خیبر پختونخوا میں ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کے لیے منتخب کردہ سیکرٹری، ٹرانس جینڈر ڈاکٹر مہرب معیز اعوان ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے
عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے خیبر پختونخوا میں ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کے لیے منتخب کردہ سیکرٹری، ٹرانس جینڈر ڈاکٹر مہرب معیز اعوان ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئےتصویر: Faridullah Khan

ٹرانس جینڈر افراد کی تنظیمیں

صوبائی دارالحکومت پشاور میں اس وقت ٹرانس جینڈر شہریوں کی فلاح و بہبود کی دعوے دار چار تنظیمیں کام کر رہی ہیں مگر دھڑے بندیوں کے باعث ایسے افراد کے مسائل کو بخوبی اجاگر نہیں کیا جا سکا اور ان کے مسائل روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ پشاور میں ایسی ہی ایک فلاحی تنظیم کی سربراہ فرزانہ اعوان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ انٹرویو میں بتایا، ''پشاور میں ساڑھے پانچ ہزار ٹرانس جینڈر افراد ہیں۔ ان میں مقامی کے علاوہ دیگر اضلاع سے آنے والے بھی شامل ہیں۔ مجموعی طور پر صوبے بھر میں ٹرانس جینڈر افراد کی تعداد 70 ہزار اور 75ہزار کے درمیان ہے۔‘‘

نیپال میں ہم جنس پسند افراد کی شادی کی قانونی منظوری

فرزانہ اعوان کا کہنا تھا کہ صوبے میں محض قریب 20 فیصد ٹرانس جینڈر افراد کے پاس شناختی کارڈ ہیں اور کسی بھی حکومتی فلاحی اسکیم سے صرف یہی چھوٹی سے تعداد فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ جب ڈی ڈبلیو نے ان سے ٹرانس جینڈر افراد کی بہبود کے لیے ماضی میں کیے گئے حکومتی اعلانات پر عمل درآمد کے حوالے سے سوال کیا، تو فرزانہ اعوان کا کہنا تھا، ''یہ اعلانات بس اعلانات ہی ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ ایسے کسی شہری کی موت کے بعد اسے دفنانے کا ہوتا ہے۔ اس کی تدفین کے لیے کوئی بھی جگہ بڑی مشکل سے ملتی ہے۔ حکومت نے حال ہی میں ہر ضلع میں دو دو کنال زمین ٹرانس جینڈر افراد کے قبرستانوں کے لیے مہیا کرنے کا وعدہ کیا۔ اس پر بھی تاحال عمل درآمد نہیں ہوا۔‘‘

افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بہت سے ٹرانس جینڈر باشندے اپنی جانیں بچانے کے لیے فرار ہو کر پاکستان پہنچ چکے ہیں
افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بہت سے ٹرانس جینڈر باشندے اپنی جانیں بچانے کے لیے فرار ہو کر پاکستان پہنچ چکے ہیں تصویر: Faridullah Khan

معاشرے کے مرکزی دھارے میں شمولیت کی جدوجہد

ٹرانس جینڈر افراد کو معاشرتی زندگی کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی جدوجہد میں اب تک بعض سیاسی جماعتوں نے اہم قدم اٹھائے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی نے حال ہی میں اپنے انٹرا پارٹی الیکشن کے دوران  ڈاکٹر مہرب معیز اعوان کو ٹرانس جینڈر شہریوں کے حقوق کے لیے سیکرٹری منتخب کیا۔

اے آئی کے ذریعے ٹرانس جینڈر کے حوالے سے رویے کو بدلا جا سکتا ہے؟

ڈی ڈبلیوں نے ڈاکٹر مہرب معیز اعوان کے ساتھ بھی گفتگو کی، جس میں ان کا کہنا تھا، ''ٹرانس جینڈر شہریوں کو قومی زندگی کے مرکزی دھارے میں لانا صرف کسی ایک جماعت یا تنظیم کا کام نہیں۔ میں اپنی پارٹی کے پلٹ فارم سے دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین سے مل کر اس مقصد کے لیے ایک لائحہ عمل تیار کروں گا۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹرانس جینڈر افراد کے خلاف پرتشدد کارروائیاں صوبے خیبر پختونخوا کی بدنامی کا باعث ہیں، ''میری کوشش ہے کہ ضلعی سطح پر ایسے شہریوں کو متحد کر سکوں اور انہیں تنظیمی سطح پر فعال بنا سکوں تاکہ ان کے حقوق کے لیے مؤثر طور پر آواز اٹھائی جا سکے۔‘‘ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کے اس ''صوبے میں آج تک مجموعی طور پر 800 سے زائد ٹرانس جینڈر افراد کو قتل کیا جا چکا ہے۔‘‘

پاکستانی ٹرانس جینڈر شہریوں کو شناختی کارڈوں کا اجرا بحال

خیبر پختونخوا میں ایسے شہریوں کے بارے میں کیسے اقدامات کیے جا رہے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ صوبائی وزیر اعلیٰ ہدایت دے چکے ہیں کہ ٹرانس جینڈر افراد کے علاج کے لیے صوبے کے سرکاری ہسپتالوں میں علیحدہ وارڈز مختص کیے جائیں۔ اس کے علاوہ ایسے شہریوں کی قانونی مدد کے لیے کئی غیر سرکاری تنظیمیں اور وکلاء بلامعاوضہ اپنی خدمات بھی پیش کرتے ہیں۔

پشاور میں ٹرانس جینڈر افراد اپنی کمیونٹی پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے
پشاور میں ٹرانس جینڈر افراد اپنی کمیونٹی پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئےتصویر: Faridullah Khan

لیگل سپورٹ نیٹ ورک کے ذریعے قانونی مدد

خیبر پختونخوا میں لیگل سپورٹ نیٹ ورک نامی تنظیم بھی ٹرانس جینڈر شہریوں کی مدد کے لیے کافی فعال ہے۔ اس نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والی ماہر قانون شہوانہ ایڈووکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم ٹرانس جینڈر افراد کو قانونی مدد فراہم کرتے ہیں۔ ان کی اکثریت کے پاس قومی شناختی کارڈ تک نہیں ہوتے۔ ان پر مسلح حملوں یا انہیں ہراساں کیے جانے کے واقعات میں ہم ان کی قانونی مدد تو کرتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پولیس ان کی شکایت پر مقدمے کے اندراج کے لیے ایف آئی آر تک درج نہیں کرتی۔ کسی ٹرانس جینڈر شہری پر کوئی مسلح حملہ ہو یا اسے قتل بھی کر دیا جائے، تو پولیس ایف آئی آر 'نامعلوم افراد‘ کے خلاف ہی درج کرتی ہے۔‘‘

جرمن جیلیں ٹرانس جینڈر قیدیوں کا کیا کرتی ہیں؟

شہوانہ ایڈووکیٹ نے بھی کہا کہ حکومت ٹرانس جینڈر شہریوں کی فلاح و بہبود سے متعلق جو اعلانات کرتی ہے، وہ ''محض دکھاوے کی باتیں‘‘ ہی ثابت ہوتے ہیں۔، ''حکومت نے ان کے علاج کے لیے بڑے ہسپتال میں الگ وارڈ تو بنا دیا، لیکن ڈاکٹر ایسے مریضوں کو وہ توجہ نہیں دیتے جو دینا چاہیے۔ حالت یہ ہے کہ ہر ماہ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے ارکان پر پانچ چھ حملے ہو رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی نمائندہ تنظیموں کے مطابق صوبے خیبر پختونخوا میں ٹرانس جینڈر شہریوں کی تعداد 50 ہزار کے قریب ہے۔

کئی ٹرانس جینڈر افراد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں پاکستان کے اس صوبے کے مختلف حصوں سے ملنے والی مسلسل دھمکیوں اور ہراساں کیے جانے کا سامنا ہے
کئی ٹرانس جینڈر افراد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں پاکستان کے اس صوبے کے مختلف حصوں سے ملنے والی مسلسل دھمکیوں اور ہراساں کیے جانے کا سامنا ہےتصویر: Faridullah Khan

افغان ٹرانس جینڈر باشندے

پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان سے بھی کافی تعداد میں ایسے افراد پاکستان پہنچے ہیں اور ان کی اکثریت خیبر پختونخوا بالخصوص پشاور ہی میں رہائش پذیر ہے۔

ایسے افغان باشندوں نے پشاور ہائی کورٹ میں یہ درخواست بھی دائر کر رکھی ہے کہ افغانستان میں طالبان کے دور حکومت میں ان کی جانیں خطرے میں ہیں، لہٰذا انہیں پاکستان میں رہائش کی اجازت دی جائے۔

یورپ میں ہم جنس پسندوں کے حقوق، پولینڈ سب سے پیچھے

پشاور ہائی کورٹ میں موجود افغانستان کے صوبہ لغمان سے تعلق رکھنے والی ٹرانس جینڈر خاتون مہک نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''افغانستان میں بے پناہ مشکلات تھیں۔ لیکن  یہاں آکر بھی ہمیں مشکلات کا سامنا ہے۔ ہم گھر سے باہر نہیں نکل سکتے، کوئی روزگار بھی نہیں جس کی وجہ سے بے پناہ مالی مسائل ہیں۔ ہمیں پولیس کی جانب سے بھی تنگ کیا جا رہا ہے۔ افغان ہونے کی وجہ سے ہمیں پاکستان میں دو گنا مشکلات ہیں جبکہ افغانستان میں تو ہماری زندگی ہی داؤ پر لگی تھی۔‘‘

پاکستان میں پناہ لینے کے خواہش مند افغان ٹرانس جینڈر باشندوں، فنکاروں اور گلوکاروں کا ایک گروپ اپنے وکلاء کے ہمراہ پشاور ہائی کورٹ کی عمارت کے احاطے میں
پاکستان میں پناہ لینے کے خواہش مند افغان ٹرانس جینڈر باشندوں، فنکاروں اور گلوکاروں کا ایک گروپ اپنے وکلاء کے ہمراہ پشاور ہائی کورٹ کی عمارت کے احاطے میںتصویر: Faridullah Khan

خیبر پختونخوا پولیس کی جانب سے حفاظتی اقدامات

پشاور پولیس نے ٹرانس جینڈر افراد کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی بنائی ہے، جس کا پہلا اجلاس کچھ عرصہ قبل پشاور کے علاقے گل بہار کے پولیس سٹیشن میں منعقد ہوا تھا۔ اس اجلاس میں پولیس کے سربراہ نے مقامی ٹرانس جینڈر باشندوں کو یقین دلاتے ہوئے کہا تھا، ''ٹرانس جینڈر افراد بھی پاکستان کے برابر کے شہری ہیں۔ انہیں جو بھی ہراساں کرے گا، اس کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کی جائے گی۔‘‘

پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کے لیے خصوصی ہاٹ لائن متعارف

اس موقع پر ایس ایس پی کاشف عباسی نے یقین دلایا تھا کہ ٹرانس جینڈر افراد کے مسائل حل کرنے کے لیے باہمی مشاورت سے بتدریج اقدامات کیے جائیں گے۔ کسی کو یہ اجازت نہیں دئی جائے گی کہ ایسے شہریوں کو ہراساں کیا جائے۔‘‘

حکومت اور حکومتی اداروں کی بار بار کی یقین دہانیوں کے باوجود خیبر پختونخوا میں ٹرانس جینڈر افراد پر حملوں میں کمی نہیں آئی اور اس سال بھی اب تک متعدد ٹرانس جینڈر باشندے قتل اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔

سیاسی عمل میں شرکت کے بغیر حقوق نہیں ملیں گے، پاکستانی ٹرانس جینڈر