1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبر پختونخوا میں دہشت گردی میں ایک پھر اضافہ

فریداللہ خان، پشاور
17 جولائی 2023

خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی اس نئی لہر میں پولیس اور پولیس سٹیشنز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ماہ محرم میں دہشت گردی کے خطرات کے تناظر میں سکیورٹی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4U0T6
Pakistan Bombenanschlag
تصویر: Hussain Ali/Pacific Press Agency/IMAGO

خیبر پختونخوا حکومت اقلیتیوں، مذہبی راہنماؤں اور پولیس پر دہشت گردانہ حملوں کو روکنے میں موثر پالیسی سامنے لانے میں ناکام ہوئی ہے، سال رواں کے پہلے چھ ماہ کے دوران 144پولیس اہلکار دہشت گردوں کا نشانہ بنے جبکہ 224 زخمی ہوئے ہیں۔ اسی طرح پختونخوا پولیس کے مطابق محکمہ انسداد دہشت گردی نے 434 دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔

ایران میں مظاہرے: ہلاکتیں اور مغربی اقوام کا ردعمل

کابل: محرم کے ماتمی جلوس پر داعش کا حملہ، آٹھ افراد ہلاک

خیبر پختونخوا کے ایک اعلیٰ افسر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا''وسائل اور نفری کی کمی کی وجہ سے  پولیس کو بعض اوقات دہشت گردوں سے نمٹنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘

خیبر پختونخوا پولیس کے پاس جہاں وسائل کی کمی ہے، وہاں اسے افرادی قوت کی کمی کا سامنا بھی ہے۔  لیکن اس کے باوجود پولیس کے انسپکٹر جنرل اختر حیات گنڈا پور کا کہنا ہے، ''پولیس نے عوام کو دہشت گردی اور بدامنی سے بچانے کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ پیر کے روز انہیں چھ ماہ کے دوران پولیس کی کارکردگی کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ جس کے بعد ان کا کہنا تھا، ''قیام امن کی راہ میں سینکڑوں پولیس اہلکاروں نے جان کی قربانی دی ہے۔ ہم قیام امن کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ برداشت نہیں کریں گے۔‘‘

 محرم میں سیکورٹی اقدامات

محرم  کا مہینہ خیبر پختونخوا میں سیکورٹی کے حوالے سے حساس قرار دیا جاتا ہے۔ ماتمی جلوس اور مجالس کے دوران پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے ایک درجن اضلاع کو حساس قرار دیا گیا ہے ۔ ان دنوں کے لیے مختلف علاقوں میں خصوصی سیکورٹی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔  پشاور میں اگلے چند دنوں کے لیے  ساڑھے چار ہزار پولیس اہلکاروں کو امن وامان کے قیام کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔ صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت بارہ اضلاع کو حساس قرار دیا گیا جن میں جنوبی اضلاع  ڈیرہ اسماعیل خان، کرم  اور بعض قبائلی اضلاع سمیت کئی دیگر علاقے شامل ہیں۔

افغان مہاجرین کا داخلہ بند

خیبر پختونخوا میں کسی بھی اہم تہوار یا مذہبی پروگرام کے دوران افغان مہاجرین کا شہری علاقوں میں داخلے پر پابندی عائد کی جاتی ہے اور انہیں کیمپوں تک محدود رکھنے کا اعلامیہ جاری کیا جاتا ہے لیکن یہ اقدامات صرف اعلانات تک محدود ہوتے ہیں۔ افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے ہر شہر کے اہم تجارتی مراکز میں کاروبار کرتی ہے۔  تاہم پولیس کی نظروں میں آ جانے والے افراد کو گرفتار کیا جاتا ہے۔گزشتہ دو دنوں میں پشاور پولیس نے درجنوں افغان باشندوں کو 14 فارن ایکٹ کے تحت گرفتار کرکے جیل بھیج دیا ہے۔ پاکستان میں 14 لاکھ سے زیادہ افغان باشندے رہائش پذیر ہیں جن میں نصف سے زیادہ غیر قانونی ہیں۔ افغان مہاجرین کی سب سے زیادہ تعداد خیبر پختونخو امیں رہائش پذیر ہیں جبکہ غیر قانونی مہاجرین کی بھی سب سے بڑی تعداد پختونخوااور باالخصوص پشاور میں مقیم ہیں ۔

طالبان کے افغانستان میں عاشورہ

پشاور کے لیے سیف سٹی منصوبہ

پشاور کو دہشت گردوں کے حملوں سے بچانے کے لیے2009 میں سیف سٹی کا منصوبہ تجویز کیا گیا لیکن اس منصوبے پر آج تک عملی کام شروع نہ ہوسکا۔ اس منصوبے میں 800 مقامات پر 6000 ہزار کیمرے نصب کیے جانا تھے۔ اس منصوبے کی فیزیبلیٹی پر خطیر رقم خرچ کی گئی لیکن دہشت گردی اور اسٹریٹ کرائمز کی روک تھا م کے لیے اس منصوبے میں سی سی ٹی وی کیمرے تک نصب نہ ہو سکے۔ پولیس کو دہشت گردوں، ٹارگٹ کِلنگ اور بھتہ خوری میں ملوث افراد کی گرفتاری میں کامیابی جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے باعث ہوئی ہے اس ٹیکنالوجی میں جیو فنسنگ اور سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج یا دیگر جدید ٹیکنالوجی شامل ہے سال رواں کے جنوری کے مہینے میں پشاور میں دہشت گردی اور بدامنی روکنے کیلئے 900سے زیادہ مقامات کی نشاندہی کی گئی تھی جہاں پانچ ماہ کے اندر سیف سٹی کا پہلا مرحلہ مکمل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن اس میں بھی کامیابی حاصل نہ ہوسکی ۔