خیبر ایجنسی میں جھڑپیں، اٹھائیس افراد ہلاک
18 اکتوبر 2011اس حملے میں ہلاک ہونےوالوں میں چودہ عسکریت پسند اورپانچ شہری بھی شامل ہیں۔ خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل حکام کے مطابق سیکورٹی فورسز کا ایک قافلہ اشیائے ضرورت لیے تحصیل باڑہ کے اکا خیل نامی علاقے سے گزر رہا تھا کہ اس دوران پہاڑوں میں چھپے شدت پسندوں نے ان پر حملہ کیا ۔جس پر فورسز نے جوابی کاروائی کی۔
افغانستان میں موجود امریکی اور نیٹو افواج کو پاکستان کے راستے پہنچنے والی رسد خیبر ایجنسی سے ہو کر گزرتی ہے، جہاں ایک عرصے سے عسکریت پسند وں کے کئی گروپ سیکورٹی فورسز کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اسی راستے سے گزرنے والے نیٹو کے ٹرکوں کو بھی اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے متصل خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ میں گزشتہ 28 ماہ سے کرفیو نافذ ہے جہاں سے زیادہ تر لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں۔ خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے سابق رکن محمد شاہ آفریدی کا کہنا ہے: ’’جنگ مسائل کا حل نہیں ہوسکتا، اس خطے میں کئی جنگیں لڑی جاچکی ہیں لیکن آخر کار مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے تنازعات کا حل نکالا جاتا ہے اور یہی قبائلی علاقوں کا طریقہ بھی ہے۔ آج امریکہ بھی مسائل کے حل کیلئے مذاکرات کا راستہ اپنا رہا ہے تو ہم کیوں نہ بات چیت کے ذریعے اپنے مسائل حل کریں۔‘‘
افغان سرحد سے متصل پاکستان کے تقریباﹰ تمام قبائلی علاقوں میں موجود عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، تاہم امریکہ کی جانب سے شمالی وزیرستان میں حقانی نٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی کیلئے دباﺅ بڑھایا جارہا ہے۔امریکی حکام کا مؤقف ہے کہ شمالی وزیرستان میں پناہ لینے والے حقانی نیٹ ورک کے القاعدہ کے ساتھ قریبی روابط ہیں جو افغانستان میں اتحادی افواج کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
ایک امریکی تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ افغانستان میں دس سالہ جنگ القاعدہ اور حقانی نٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی سے ختم کی جا سکتی ہے۔ لیکن پاکستان کا مؤقف ہے کہ اس وقت فوج کئی محاذوں پر لڑرہی ہے جس کی وجہ سے ایک اور محاذ کھولنے کا خطرہ نہیں لے سکتے۔
حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی سے پاکستان کے انکار کے بعد امریکہ نے ان علاقوں میں چھپے مطلوب افراد کے خلاف ڈرون حملون میں اضافہ کردیا ہے۔ سال رواں کے دوران پچاس سے زیادہ حملے کئے گئے جن میں کئی اہم کمانڈروں کی ہلاکت کے دعوے کیے گئے ۔پاکستان میں 2007 کے لال مسجد آپریشن کے بعد القاعدہ اور طالبان کی کارروائیوں میں شدت آئی ہے۔
قبائلی علاقوں میں آپریشن اور عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے کے اعداد وشمار کے مطابق آج بھی ساڑھے تین لاکھ قبائلی بے گھر ہیں۔
رپورٹ: فرید اللہ خان، پشاور
ادارت: ندیم گِل