1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خصوصی بچوں کے والدین کو بھی خصوصی تربیت کی ضرورت ہے

1 ستمبر 2023

اندازوں کے مطابق دنیا کی پندرہ فیصد آبادی یا ہر سات میں سے ایک فرد 'سیپشل‘ ہے اور ان میں تیس فیصد سے زائد تعداد ان لوگوں کی ہے، جو ذہنی معذور ہیں۔ ایسے بچوں کو خصوصی نگہداشت اور ان کے والدین کو تربیت دینے کی ضرورت ہے۔

https://p.dw.com/p/4Vqd0
DW Urdu Bloger Swera Khan
تصویر: Privat

پرانے شہر کے رہائشی علاقوں کی خاص بات یہ ہے کہ کئی نسلوں سے یہاں رہنے والوں کا آپسی رابطہ بہت قریبی ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگ ایک دوسرے کے دکھ اور سکھ میں نہ صرف برابر کے شریک ہوتے ہیں بل کہ گھروں کی جڑی دیواروں سے آتی آوازیں اس گھر کے حالات سے بھی با خبر رکھتی ہیں۔

انہی میں ایک گھر ایسا ہے، جہاں اٹھارہ بیس برس کا ایک ذہنی اور جسمانی طور پر معذور نو جوان حیدر اپنے خاندان کے ساتھ رہتا ہے۔ میں نے اسے اپنی آنکھوں کے سامنے پلتا، بڑھتا دیکھا ہے۔ مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب محلے میں طرح طرح کی باتیں مشہور تھیں۔ کچھ کے خیال میں اس بچے پر کسی آسیب کا سایہ تھا اور چند ایک کے مطابق یہ اس کے والدین کے کسی گناہ کے صلے میں قدرت کی طرف سے ملی سزا تھی۔

اس کے والدین، اسے گود میں اٹھائے پیروں، فقیروں اور درگاہوں کے چکر لگاتے رہتے۔ اس معصوم جان کو شاید نہ ٹھیک ہونا تھا اور نہ وہ ہوا، اب صورت حال یہ ہے کہ یہ بچہ شفایاب نہیں ہوا۔ لیکن وہ اہم وقت ضائع ہو گیا جو اس کی زندگی کے بنیادی شعور کی تربیت میں لگایا جا سکتا تھا۔

ماں باپ جو اب ہمہ وقت اس کی دیکھ بھال سے قاصر ہیں، ان کے پاس یہی چارہ ہے کہ اس کے پاؤں میں ایک زنجیر ڈال کر اسے گھر کے دروازے کے ساتھ باندھ دیتے ہیں اور یہ انسان ہر آتے جاتے پر آوازیں کستا ایک تماشا بنا رہتا ہے۔ ایسے حالات میں نہ تو کوئی ان کے گھر آتا جاتا ہے اور نہ ہی یہ لوگ خود کسی سے سماجی میل جول رکھنے کے قابل رہے ہیں۔

اسی تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ رحمان، جس  کا خاندان نسبتاً بہتر معاشی پس منظر سے تعلق رکھتا ہے۔ اگرچہ اس کے گھر والے اس کے لیے بہترین تعلیم و تربیت کا بندوبست بھی کر سکتے تھے لیکن وہاں بھی تمام زور، تعویز گنڈوں اور اسی طرح کے ٹوٹکوں پر رہا۔ یہ بچہ بچپن سے ہی اپنے دادا جان کے بہت قریب تھا، جو اسے ہر جگہ ساتھ لیے پھرتے، اس کے کھانے پینے اور دیگر ضروریات کا خیال رکھتے لیکن ان کے انتقال کے بعد حالات دگر گوں ہیں۔

اس کے گھر والوں کا خیال تھا کہ اگر اس نو جوان کی شادی کر دی جائے تو آہستہ آہستہ یہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔ خیال کی حد تک تو یہ بات قابل قبول ہی تھی لیکن حیرانی اس بات پر ہے کہ اسے رشتے مل بھی جاتے ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں اس کی تین شادیاں ہوئیں، جن کا انجام طلاق پر ہوا اور اب چوتھی شادی کے لیے پھر سے کسی "مناسب" رشتے کی تلاش جاری ہے۔

جسمانی معذور افراد، جن کی ذہنی صلاحیتیں برقرار ہیں۔ ان کی زندگی بھی آسان نہیں لیکن یہاں میرا موضوع ذہنی معذوری کے شکار افراد ہیں، جن کے لیے جینے کے معنی ہی کچھ اور ہیں۔ زندگی کی ڈور سے بندھے یہ لوگ ہمارے ارد گرد کے ماحول کا حصہ ہیں۔ انہیں سائیں، جماندرو، اللہ لوک اور اسی طرح کے دیگر ناموں سے پکارا جاتا ہے لیکن ان کی صحت، روزگار، سماجی شعور اور تربیت کے متعلق تو کیا کہنا۔ان لوگوں کے ساتھ اچھے برتاؤ اور بہ تر سلوک کے متعلق تربیت کا کوئی تصور نہیں ہے۔

ذہنی معذوری کے اسباب میں دوران پیدائش، بنیادی حفظان صحت کے اصولوں کو نظر انداز کرنے جیسی سادہ وجہ سے لے کر جنیٹکس اور جینز جیسی پیچیدہ وجوہات کو قصور وار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ طبی ماہرین کے نزدیک اس کی ایک بڑی وجہ قریبی رشتہ داروں میں شادیاں کرنے کا رواج بھی ہے۔

ذہنی معذوری کے شکار افراد کے خاندان، بالخصوص والدین دوہری مشکل کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے بچے کی شخصیت کی مشکلات اور ایڈجسٹمنٹ کے مسائل کی وجہ سے بہت سے والدین اپنی زندگی کو دکھی سمجھتے ہیں۔ جب کہ کچھ والدین ذہنی طور پر معذور بچے کو نظر انداز کرتے ہیں، تو کہیں کچھ والدین اس کی مدد کرنے کے لیے اس کی حد سے زیادہ حفاظت کرتے ہیں۔

یہ تمام عوامل ایک بچے کو کچھ بھی سیکھنے یا حاصل کرنے کی بجائے اسے مکمل طور پر نا اہل بنا دیتے ہیں۔ لہذا والدین کو مناسب طریقے سے تربیت دی جانی چاہیے کہ اگر ان کا بچہ جسمانی یا ذہنی طور  پر کچھ کمزور ہے تو اسے کس طرح اور کیسے سنبھالنا ہے۔ اس طرح کے بچوں کا مناسب خیال رکھنا اور انہیں پیار دیا جانا چاہیے۔ والدین کو ہمدرد ہونا چاہیے لیکن ساتھ ہی ساتھ ان افراد کی بنیادی تربیت پر کسی بھی قسم کے سمجھوتے سے گریز کرنا چاہیے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اگرچہ ذہنی معذور افراد کے بارے میں آگہی میں اضافہ ہوا ہے، لیکن ترقی پذیر معاشروں میں اب بھی بہت زیادہ بہتری کی گنجائش ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ ان افراد اور ان کی ضروریات کے متعلق معاشرتی شعور میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ افراد کسی گناہ کی سزا، کسی جن بھوت کا سایہ یا کسی بد دعا کا نتیجہ نہیں، بلکہ ہماری ہی طرح کے انسان ہیں، جن کی ضروریات قدرے مختلف ہیں۔

 بچپن میں جتنا جلد ان کی معذوری کی تشخیص ہو جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ تشخیص کی صورت میں پیروں، فقیروں اور حکیموں کے پیچھے بھاگ کر وقت اور پیسا برباد کرنے کی بجائے ان افراد کی تربیت پر توجہ دی جانی چاہیے، تا کہ یہ بچے اپنی بنیادی ضرورتوں کو خود سے پورا کرنے کے قابل ہو سکیں۔

دوسری طرف معذوری کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے سکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر خصوصی تعلیم کو بطور ایک اختیاری مضمون شامل کیا جا سکتا ہے، تا کہ تمام شعبہ جات کے لوگ خصوصی بچوں کی ضروریات اور معذوری کے بارے میں جان سکیں اور معاشرے کا ہر فرد اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے ایسے بچوں کی مناسب تعلیم و تربیت اور بحالی میں اپنا حصہ ڈال سکے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔