1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خصوصی انٹرویو: پاکستان کابل کی طالبان سے مفاہمت کے لیے کوشاں

انٹرویو: امتیاز احمد30 نومبر 2013

پاکستان کے نامزد سیکرٹری خارجہ عبدالباسط نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان کی خواہش ہے کہ کابل حکومت اور افغان طالبان کے مابین امن معاہدہ ایک سال کے اندر اندر طے پا جائے۔

https://p.dw.com/p/1AQss
تصویر: DW/I. Ahmad

عبدالباسط نے یہ بھی کہا کہ افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے اسلام آباد کو یقین دہانی کرائی ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ عبد الباسط کو پاکستانی وزارت خارجہ کا نیا سیکرٹری نامزد کیا جا چکا ہے اور وہ 15 دسمبر تک اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔ یہ پاکستانی سفارت کار گزشتہ تین عشروں سے ملکی وزارت خارجہ سے منسلک ہیں اور کئی ممالک میں پاکستان کے سفیر بھی رہ چکے ہیں۔ عبدالباسط ابھی تک جرمنی میں پاکستان کے سفیر کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں اور انہوں نے ڈوئچے ویلے کو یہ انٹرویو فرینکفرٹ میں دیا۔

پاک افغان تعلقات کے تناظر میں پاکستانی خارجہ پالیسی کے بارے میں ڈوئچے ویلے کے لیے امتیاز احمد کا عبدالباسط کے ساتھ خصوصی انٹرویو:

ڈی ڈبلیو: افغانستان اور امریکا کے مابین ممکنہ سکیورٹی معاہدے کو پاکستان کے لیے دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

عبد الباسط: اس کے دو پہلو ہیں۔ یہ ایک دو طرفہ معاملہ ہے، ہمارے لیے کوئی تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر یہ معاہدہ ہمیں امن کی طرف لے کر جا رہا ہے تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ وقت بتائے گا کہ اس کی پیچیدگیاں اور نتائج کیا ہیں۔

ڈی ڈبلیو: آپ کی نظر میں اس معاہدے کے کیا نتائج نکلیں گے؟

عبد الباسط: اس بارے میں تو کچھ کہنا بہت مشکل ہے لیکن افغانستان اس وقت بڑے مشکل مراحل سے گزر رہا ہے۔ وہاں قومی یکجہتی یا مفاہمتی عمل کے حوالے سے جو کوششیں ہو رہی تھیں، انہیں تھوڑا بہت دھچکا لگا ہے۔ میں کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہراؤں گا لیکن جو کوششیں جاری تھیں، ان میں کچھ رکاوٹیں آئی ہیں۔ پاکستان کی کوشش یہ ہے کہ دسمبر 2014ء سے پہلے پہلے (افغان حکومت اور طالبان کے مابین) مفاہمتی عمل کسی نتیجے پر پہنچ جانا چاہیے۔ حامد کرزئی نے حالیہ دورۂ پاکستان بھی اسی سلسلے میں کیا تھا اور ہم نے انہی کے کہنے پر ملا عبدالغنی برادر سمیت پاکستان میں قید کئی طالبان کمانڈروں کو رہا کیا ہے۔ پچھلے ہفتے ہی اعلیٰ افغان امن کونسل کا وفد پاکستان آیا تھا۔ ہمارے وزیراعظم بھی عنقریب کابل کا دورہ کریں گے۔

ڈی ڈبلیو: رہا کیے جانے والے طالبان رہنما امن مذاکرات میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟

عبد الباسط: یہ طالبان رہنماؤں کا معاملہ ہے کہ وہ کس طرح اور کس سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا ان سے براہ راست تعلق نہیں ہے۔ جو بھی کوششیں ہو رہی ہیں، ضروری نہیں کہ عوام کے سامنے لائی جائیں۔ یہ ایک پیچیدہ اور حساس معاملہ ہے۔ میں چاہوں گا کہ ہم اس پر کوئی تبصرہ نہ کریں۔ پس پردہ کوششیں جاری ہیں اور ان (طالبان رہنماؤں) کے کابل حکومت کے ساتھ رابطے ہو ں گے۔

ڈی ڈبلیو: پاکستان بھارت کے افغانستان میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟

عبد الباسط: جہاں تک افغانستان اور بھارت کے تعلقات کا معاملہ ہے، میں یہی کہوں گا کہ دونوں خود مختار ملک ہیں اور وہ اقتصادی، معاشی یا کسی بھی طرح کے تعلقات رکھنے میں آزاد ہیں۔ ہماری خواہش صرف یہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کو غیر مستحکم بنانے کے لیے استعمال نہ ہو۔ یقیناً ہم جانتے ہیں کہ بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں افغانستان سے دخل اندازی ہو رہی ہے۔

ڈی ڈبلیو: کس طرح کی دخل اندازی کی جا رہی ہے اور کون کر رہا ہے؟

عبد الباسط: اس کی تفصیلات تو میں نہیں بتا سکتا لیکن جب حال ہی میں ہمارے وزیر اعظم نے نیویارک میں اپنے بھارتی ہم منصب سے ملاقات کی تھی، تو بلوچستان کا معاملہ اٹھایا گیا تھا کہ بھارت وہاں دخل اندازی کر رہا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم کے ساتھ حالیہ ملاقات میں صدر کرزئی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کی کوشش ہو گی کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔

ڈی ڈبلیو: پاکستان کی نظر میں اچھا یا برا طالبان کون ہے؟

عبد الباسط: بات اچھے یا برے کی نہیں ہے۔ ہم نے دیکھنا ہے کہ ہماری قوم میں کونسی متفقہ رائے پیدا ہوئی ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس کے بعد متفقہ طور پر پاکستانی طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ ہم نے پچھلے کئی سالوں سے دیکھا کہ طاقت کے استعمال سے کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا، ہماری جو کوششیں تھیں بارآور ثابت نہیں ہوئیں۔ متفقہ لائحہ عمل کے نتیجے میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس امن عمل کو آگے لے کر چلے۔

ڈی ڈبلیو: کیا حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد بھی پاکستانی حکومت داخلی امن عمل جاری رکھے ہوئے ہے؟

عبد الباسط: میرے خیال میں اس وقت مذاکرات تو نہیں ہو رہے لیکن مذاکرات کے آغاز کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ پس پردہ چیزیں ہو رہی ہیں، جب نتائج نکلیں گے تو آپ سب کو پتہ چل جائے گا۔

ڈی ڈبلیو: ڈرون حملوں کے حوالے سے حکومت پاکستان کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟

عبد الباسط: وزیر اعظم نواز شریف نے باراک اوباما کے ساتھ ملاقات میں یہ معاملہ اٹھایا تھا۔ بین الاقوامی رائے بھی ڈرون حملوں کے خلاف بڑھتی جا رہی ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ ڈرون حملوں کا کوئی مثبت فائدہ نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ اس سے القاعدہ یا طالبان کے لیڈر مارے جاتے ہوں لیکن ان حملوں کا کولیٹرل ڈیمج نقصان دہ ہو جاتا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بین الاقوامی ریاستوں کے مابین تعلقات کو اس طرح قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ تعلقات کے کچھ اصول ہوتے ہیں، جن کے تحت وہ قائم رہتے ہیں۔ ہم واشنگٹن کے ساتھ بھرپور طریقے سے یہ معاملہ اٹھائے ہوئے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اس کا کوئی بہتر راستہ نکل آئے گا۔