1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل کیسے نہیں ہوگا؟

7 جون 2024

آج کے دور میں اصل لاچار وہ ہے جسے اپنے حقوق سے متعلق آگاہی نہیں۔ اب صارفین لالچی، ناجائز منافع خور اور ناقص اشیاء فروخت کرنے والے دکانداروں کے خلاف اپنے ‌حقوق کا تحفظ خود با آسانی کر سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4gnVa
DW Urdu, Tabindah Khalid, Blogger
تصویر: Privat

پاکستان میں شاپنگ مالز، تعلیمی اداروں کے کیفے ٹیریا، پارکنگ پوائنٹس، ریلوے اسٹیشنز، تفریحی مقامات، دفاتر اور ہوٹلوں میں اکثر اشیاء کی طے شدہ قیمت (پرنٹڈ ریٹیل پرائس) سے زیادہ دام وصول کیے جاتی ہیں۔ اس قبیح فعل کو ٹرینڈ کہیں یا معمول بلکہ یہ دکاندار کا اب ناجائز حق بن گیا ہے۔

ملک میں ہر چھوٹا بڑا دکاندار صارفین کے ساتھ ہر طرح کی لوٹ مار میں مصروف ہے۔ آپ مارکیٹ جائیں تو سمجھ نہیں آتا کہ کون سی پراڈکٹ اصل ہو سکتی ہے اور اس کی حقیقی قیمت کیا ہے؟ مثال کے طور پر بازار میں ایک ہی پلازہ میں مختلف دکانوں پر ایک ہی چیز کے بھاؤ اتنے مختلف ہوتے ہیں کہ بندہ چکرا جاتا ہے۔ ہر دکاندار نے ایک ہی فقرہ ازبر کیا ہوتا ہے ''میرا مال سب سے بہتر اور  اعلی کوالٹی کا ہے،آپ جس دکاندار کی بات کر رہے ہیں وہ تو گھٹیا معیار کو ترجیح دیتا ہے، آپ نے ان سے جو کچھ خریدا ہے اگر مجھ سے خریدتے تو میں کم قیمت پر آپ کو دیتا۔ ذرا دکھائیے کیا خریدا گیا؟ فقط دکھانے پر دوسرا دکاندار منہ کے اتنے زاویے بدلتا ہےکہ مشتری اندر ہی اندر اپنے آپ کو کوسنے لگ جاتا ہے کہ آخر وہ پیسوں کی ادائیگی کے باوجود ایک نمبر شے کا حصول کہاں سے ممکن بنائے؟

مہنگائی کے اس دور میں غریب عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ منافع خور مال بیچنے کی لالچ میں پھلوں میں مصنوعی رنگ اور شیرینی انجیکٹ کرتے ہیں تاکہ خریداروں کی توجہ اپنے پھلوں کی جانب مبذول کروائی جا سکے۔ رات کے وقت نوسرباز پھل فروش سیب پر سرخ، انگوروں پر سبز، خربوزوں پر پیلی روشنی ڈال کر سادہ لوح عوام کو بے وقوف بناتے ہیں کہ پھل اپنے بہترین ذائقے اور رنگ کے اعتبار سے پکا ہوا ہے۔ جیسے ہی مہنگائی کے ہاتھوں بے بس لوگ اس کو گھر لے کر جاتے ہیں تو وہ نہ صرف کچا ہوتا ہے بلکہ بد زائقہ ہوتا ہے۔ بسا اوقات فروٹ کو وقت سے پہلے پکانے کے لیے انتہائی تیز و خطرناک مسالوں کا استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ کیلشیم کاربائیڈ۔ یہ ایسا کیمیکل ہے جو کہ آم اور لیچی کو پکانے کے لیے سب سے ذیادہ استعمال ہوتا ہے۔ کیلشیم کاربائیڈ ایسیٹیلین نامی گیس کا اخراج کرتا ہے جس میں آرسینک اور فاسفورس جیسے خطرناک کیمیکلز ہوتے ہیں۔ جو دیگر پیچیدہ بیماریوں کے ساتھ ساتھ منہ میں آبلے بننے کا باعث بنتے ہے۔ اگر مسالہ شدہ پھلوں کو اچھی طرح دھو کر استعمال نہ کیا جائے تو تصور کیجئے کہ  آپ کی آنتوں اور معدے کا کیا حال ہوگا؟

قصابوں کی کثیر جماعت گوشت میں پریشر کے ذریعے پانی بھرتی ہے تاکہ گوشت وزن کے اعتبار سے ذیادہ محسوس ہو۔ صارف قصاب کو مطلوبہ رقم ہی مہیا کرتا ہے مگر پکانے پر پانی ذدہ گوشت سکڑنے کے باعث نہ صرف مقدار میں کم ہوجاتا ہے بلکہ اس کے جزئیات میں بھی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ بازاروں میں باسی و خراب سبزی مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہے۔شکایت کی جائے تو دکاندار اپنی دکان میں آویزاں ریٹ لسٹ کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ اگر کوئی چیز خراب یا عیب زدہ نکل آئے، واپسی کا کوئی تصور ہی نہیں۔ اکثر و بیشتر جلاد نما دکانداروں کے ہاں چسپاں بورڈ پر ایک جملہ درج ہوتا ہے کہ''خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہوگا۔‘‘ اس نام نہاد قانون کو غریب لوگوں پر زبردستی مسلط کرنے کی تگ و دو کی جاتی ہے اور بیچارہ خریدار بے بسی کی تصویر بن جاتا ہے۔ انٹر سٹی بسوں کے کنڈیکٹر، رکشہ ڈرائیور اپنی مرضی کے کرائے وصول کرتے ہیں۔ عید اور دیگر تہواروں کی تعطیلات پر بیرون شہر جانے والی بسوں کے کرائے دگنے لیے جاتے ہیں۔ غضب خدا کا ہم ایسی حرکات کا ارتکاب کرتے ہیں اور پھر خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں۔

 اخلاقیات تو ایک جانب رہیں اس مسئلے کے حل کے لیے عوام اور بیوروکریسی کے تعلق کو مربوط بنیادوں پر مزید استوار کرنا ہوگا۔ مقامی رہائشی اپنے علاقوں کے ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر، پولیس افسران کو درخواست جمع کروا کر شکایات کا ازالہ کروا سکتے ہیں۔ مزید براں عوام صارف عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔ جہاں تنازعات کو وقت پر حل کیا جاتا ہے نیز ان کے مفادات کا تحفظ بھی ہوتا ہے۔

آج کے دور میں غریب ہی بے بس نہیں، لاچار وہ ہے جسے اپنے حقوق سے متعلق آگاہی نہیں۔ اگر آپ اپنی محنت کی کمائی سے کوئی چیز خرید کر لاتے ہیں۔ چیز زائد المیعاد ہوتی ہے یا اسکا معیار ہرگز ایسا نہیں جو آپ کو دکھایا یا بتایاگیا۔ مثلاً دوائی، الیکڑونکس آلات، کپڑا وغیرہ تو آپ مطلوبہ دکاندار یا کمپنی کے خلاف ''صارف عدالت‘‘ جا سکتے ہیں۔ جس پر آپ کے اخراجات انتہائی کم آتے ہیں۔ عدالت پابند ہوتی ہے کہ وہ صارف کو انصاف دلوائے۔ شرط بس یہ ہے کہ ''رسید‘‘ آپ کے پاس موجود ہو۔آپ ایک سادہ کاغذ پر درخواست لکھ کر دکاندار یا کمپنی کو مطلع کریں کہ اس کے نقصان کی تلافی کی جائے ورنہ وہ یہ معاملہ عدالت لے کر جائے گا۔

مزید برآں  قیمتوں کے تعین کے بارے میں پرائس کنٹرول کمیٹیز فعال کردار ادا کریں تاکہ مارکیٹوں سے جنگل کا قانون ختم ہو کیونکہ صارفین کے حقوق کا تحفظ حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ کے تحت ایسی کونسلز ازسرنو تشکیل دی جائیں جو صارفین کو ریلیف فراہم کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔‍