1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خاکی لفافوں میں رکھی ہوئی زنانہ تکلیفیں

20 ستمبر 2021

پاکستان کے زیادہ تر گھروں کی یہ روایت ہے کہ گھر کی صفائی اور کھانا پکانے کی ذمہ داری عورت کو نبھانی پڑتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گھر کے سودے سلف کے لیے بھی عورت ذات کو ہی تکلیف کرنی پڑتی ہے۔

https://p.dw.com/p/40YEb
DW-Urdu Blogerin Saba Hussain
تصویر: Privat

چاہے پھر وہ گھر بیٹھے مرد کو اشیاء کی فہرست یاد کرانے کا کام ہو یا پھر خود جاکر چیزیں خرید لانے کا۔ میں اور میری بہن ایک دن اسی طرح اپنی ''ذمہ داری‘‘نبھاتے ہوئے کریانہ کی دکان میں ضرورت کا سامان اٹھا کر اپنی ٹرالی میں رکھتے جا رہے تھے کہ اچانک ایک شخص، جو گاہکوں کی رہنمائی کے لیے ایک طرف کھڑا ہوا تھا، کی نظر ہماری ٹرالی پر پڑی۔

 اس کی آنکھوں میں اچانک شرم کی ایک لہر گزری، جلدی سے آیا، ہماری ٹرالی سے پیڈ کا پیکٹ اٹھایا اور اس پیکٹ کو  بھورے رنگ کی تھیلی میں ڈال کر واپس ہماری ٹرالی میں رکھ دیا۔ یہ سب کرنے کے لیے اس نے ہم سے پوچھنا بالکل ضروری نہیں سمجھا۔ اب بھلا نیکی بھی کوئی کسی سے پوچھ کر کرتا ہے کیا؟

 میں نے بہن کی طرف دیکھا تو اس کا لال چہرا غصے سے مزید لال ہو چکا تھا۔ اس کی آنکھوں میں یہ سوال تھا کہ ایسا کرکے اِس مرد نے ہمیں عزت دی ہے یا ہماری رہی سہی عزت خاک میں ملا دی ہے۔ لوگ خود سے نیکی کا پیمانہ کیسے طے کر لیتے ہیں؟ اُنہیں یہ یقین کیسے ہو جاتا ہے کہ جو وہ سوچ رہے ہیں وہ بالکل ٹھیک ہے اور ٹھیک کو معاشرے میں پھیلانے کے لیے وہ کسی کی بھی ٹرالی میں ہاتھ دے دیں گے؟

دراصل دوسرے کچھ معاشروں کی طرح ہمارے معاشرے میں بھی انسان کی فطرت سے جڑی بہت سی حقیقتوں کو پاکی ناپاکی کے تصورات سے جوڑ دیا گیا ہے۔ بات یہیں تک نہیں رہی۔ پاکی ناپاکی کے ان تصورات کو آگے جنس اور صنف سے بھی جوڑ دیا گیا ہے۔ اب جنس پر بات کرنا تو پہلے ہی ممنوع ہے لیکن اس کی زد میں روزمرہ زندگی کے وہ اسباب بھی آجاتے ہیں، جن پر بات کرنا اور جن کا ادراک ہونا لازمی ہونا چاہیے۔

ہر روز اِس سیارے پر موجود کروڑوں انسان مخصوص ایام سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ ان ایام کو حیض یا ماہواری بھی کہا جاتا ہے۔ دو چار کا نہیں یہ حیض دنیا کی لگ بھگ نصف آبادی کا مسئلہ ہے۔ حیض کے مسائل میں سب سے اہم مسئلہ صحت و صفائی کا ہے۔ اِس سے بھی بڑا مسئلہ شاید اُس درد کا ہے، جس سے ان دنوں خواتین گزرتی ہیں۔ یہ کمر ٹانگوں اور پیٹ میں پیدا ہونے والے درد ہوتے ہیں، جو ایک ہی بار میں حملہ آور ہوجاتے ہیں۔

اگر صحت و صفائی کی بات کی جائے تو صورت حال کچھ یوں ہے کہ کچھ دن پہلے ہسپتال میں کام کرنے والی ایک آیا سے بات ہو رہی تھی۔ اس نے بتایا کہ اس کی تین بیٹیاں ہیں اور اس کو ہر ماہ اپنی تین بیٹیوں کے لیے سینٹری پیڈز لینے پڑتے ہیں لیکن وہ خود کپڑا استعمال میں لاتی ہے کیونکہ سینٹری پیڈز مہنگے ہیں۔ اس نے بتایا کہ اس کو اپنی بیٹیوں کی صحت اور صفائی کا خیال ہے اور وہ اس کو ہرگز فضول خرچی نہیں سمجھتی کیونکہ کپڑے اور چیتھڑے استعمال کرنے سے انفیکشن کا خطرہ رہتا ہے۔ اب سوال یہاں پر یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ماں کے لیے کون سوچے گا، جو اپنی تین بیٹیوں کی صحت و صفائی کا تو خیال کر رہی ہے لیکن اپنے لیے اس کی جیب چھوٹی پڑ جاتی ہے۔

ہمارا معاشرہ اس قدر 'باحیا اور باکردار‘ ہے کہ اس میں سینے کی جلن اور معدے کی سوزش پر تو کھل کر بات ہو سکتی ہے مگر ہر ماہ ماہواری کی شکل میں پیدا ہونے والی تکلیف اور اس کے لوازمات پر بات نہیں ہو سکتی۔ زہریلی خوراکیں اور ممنوعہ ادویات یہاں کھلے کھاتے میں فروخت ہوتی ہیں اور پیڈ خاکی لفافے میں لپیٹ دیے جاتے ہیں۔ جہاں معاشرتی سطح پر پیڈ خاکی لفافوں میں لپیٹ دیے جاتے ہوں اور حکومتی سطح پر پیڈز کو لگژری کہہ کر ٹیکس لگادیے جاتے ہوں، وہاں اندازہ کرنا چاہیے کہ بیٹیوں اور بہنوں کی صحت کس قدر خطرے میں ہے۔ کوئی اور نہ سہی تو والدین ہی اتنی مہربانی کر لیں کہ وہ اپنے بچوں کو درد اور تکلیف کی اذیتوں کو جنس سے بالاتر ہو کر کچھ بتانے اور سمجھانے کی کوشش کریں۔ ہم اپنے گھروں میں کسی تکلیف کو تکلیف ہی کی فہرست میں ڈالیں گے تو ہی آگے یہ ہمارے معاشرتی رویوں اور حکومتی پالیسیوں کا حصہ بن پائے گا۔

DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
صبا حسین نوشہرو فیروز، سندھ سے ایک فری لانس بلاگر ہیں۔sabahussain26