1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خاندانی منصوبہ بندی: پاکستانیوں کے مذہبی اور ثقافتی رجحانات

11 جولائی 2022

ملکی سطح پر شدید مشکلات کے باوجود آبادی پر قابو پانے کے لیے پاکستان کے روایتی، مذہبی اور ثقافتی رجحانات عام طور پر خاندانی منصوبہ بندی کے محفوظ طریقوں کو اپنانے اور ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

https://p.dw.com/p/4DxPB
DW Urdu Blogerin Fatima Shaikh
تصویر: privat

45 سالہ سقینا نے 10 برس قبل چوتھے بچے کی پیدائش کے بعد آپریشن کروا کر حمل ٹھہرنے کے سلسے کو ختم کروا دیا۔ اس کی بنیادی وجہ ان کے شوہر کا مانع حمل کے طریقوں کو اپنانے سے انکار تھا۔ اسی کشمکش میں تین بچوں کی پیدائش کے بعد انہوں نے غیر محفوظ طریقے سے اسقاط حمل کروایا۔

دو بچوں (ایک لڑکا اور ایک لڑکی) کی پیدائش کے بعد سقینا بہت خوش تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ وہ ان بچوں کی پرورش اچھے طریقے سے کر کے انہیں معاشرے کا ایک اہم حصہ بنا سکتی ہیں۔ لیکن فیملی پلاننگ کے بارے میں شوہر کی طرف سے مکمل انکار پر دو بچے اور پیدا ہوئے۔

2017ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 20 کروڑ سے زائد ہے۔ آبادی کے تناسب سے پاکستان دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے جبکہ ملک میں سہولیات اور روزگار کے فقدان کی وجہ سے بڑھتی ہوئی نئی نسل کے لیے مواقعوں کی شدت سے کمی ہے۔

خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف معاشرے میں آواز اٹھانے کے لیے سب سے پہلے مذہب کا استعمال کیا جاتا ہے اور یہ توجیح پیش کی جاتی ہے کہ اولاد سے برکت ہوتی ہے اور مانع حمل اسلام کے خلاف ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے خدا کی برکت کو روکنے سے رب کی رحمت کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔

سائنس کی جدید دریافتوں کو رد کر کے یہ کہا جاتا ہے کہ اولاد دینے کا فیصلہ خدا کا ہے۔ وہ جس کو چاہے 10 بچوں سے نوازے اور جس کو چاہے ایک بھی نا دے۔

اس کے ساتھ بیشتر مرد و خواتین اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ خاندانی منصوبہ بندی غیر ملکی سازش ہے اور اس کا مقصد مسلمانوں کی آبادی کم کرنا ہے تاکہ دنیا پر غیر مسلم حکمرانوں کا قبضہ ہو سکے۔ 

اس مذہبی رجحان کے اثر میں ملکی روایات اور ثقافت کو بھی اکثر شامل کر لیا جاتا ہے، جن کے مطابق بیٹے وارث ہوتے ہیں اور وہ نسل آگے چلاتے ہیں جبکہ لڑکیوں کو شادی کر کے دوسرے گھر جانا ہوتا ہے۔ اس سوچ کے پیش نظر بیٹیاں جو خدا کی طرف سے رحمت ہیں وہ زحمت بن جاتی ہیں اور بیٹے پیدا کرنے کی خواہش میں بچوں کی لائن لگا دی جاتی ہے۔

اکثر خواتین بچوں کی شادیاں اس آس میں کرتی ہیں کے وہ پوتوں کو کھلائیں گی۔ اور پوتے کی آرزو میں پوتیوں کی لائن لگ جاتی ہے۔ 

اس کے بر عکس جو لوگ مانع حمل کے طریقے اپنا رہے ہوتے ہیں ان کی ذاتی زندگی میں مستقل مداخلت کی جاتی ہے اور معاشرے کی طرف سے ان پر مستقل دباؤ ہوتا ہے: "خوش خبری کب سنا رہی/ رہے ہو؟" اس برتاؤ کی وجہ عام طور پر پاکستان میں شادی کرنے کا واحد مقصد بچے پیدا کرنا ہے۔ اس لیے پارٹنر کے ساتھ لائف انجوائے کرنا ترجیحات کی فہرست میں آخری نمبر پر بھی مشکل سے آتا ہے۔

فیملی پلاننگ کرنے والے خواتین و حضرات کی زندگی کو بسا اوقات ذمہ داریاں نا اٹھانے سے بھی جوڑا جاتا ہے۔ ان پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ یہ بچے اس لیے پیدا نہیں کرتے کیونکہ ان کے پیروں میں بیڑیاں پڑ جائیں گی اور ان کی زندگی کی موج مستی، ہلا گلا اور آوارہ گردی ختم ہو جائے گی۔ 

آبادی کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کو قابو کرنے کے لیے لوگوں کے ذہنوں میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ اولاد کی اچھی پرورش اہمیت کی حامل ہے تاکہ انہیں معاشرے کا ایک اہم حصہ بنایا جا سکے۔ اس کے ساتھ ماں اور بچے کی صحت کو یقینی بنانا بھی انتہائی اہم ہے۔ اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب خاندانی منصوبہ بندی کے محفوظ طریقہ کار پر عمل کیا جائے۔

DW Urdu Blogerin Fatima Shaikh
فاطمہ شیخ کراچی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔ زیادہ تر سماجی مسائل پر لکھتی ہیں۔