1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیات

خامیوں کی نشاندہی کریں، مودی کی ماہرین اقتصادیات سے اپیل

جاوید اختر، نئی دہلی
9 جنوری 2020

بھارت کو پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت بنانے کی وزیر اعظم مودی کی خواہش کے برعکس عالمی بینک نے آج مالی سال 2019-20 کے لیے بھارت کی متوقع اقتصاد ی ترقی کی شرح چھ فیصد سے گھٹا کر پانچ فیصد کردی۔

https://p.dw.com/p/3VwcM
Indiens Premierminister Narendra Modi
تصویر: Getty Images/AFP/P. Singh

عالمی بینک نے رواں  مالی سال کے لیے بھارت کی متوقع اقتصادی ترقی کی شرح کا اندازہ چھ فیصد سے گھٹا کر پانچ فیصد کر دیا ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم نریندر مودی نے ماہرین اقتصادیات سے حکومت کی اقتصادی پالیسیوں میں خامیوں کی نشاندہی کرنے کی اپیل کی۔

بھارت کو پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت بنانے کی وزیر اعظم مودی کی خواہش کے برعکس عالمی بینک نے آج مالی سال 2019-20 کے لیے بھارت کی متوقع اقتصاد ی ترقی کی شرح چھ فیصد سے گھٹا کر پانچ فیصد کردی۔ بھارت کے محکمہ شماریات نے ایک دن قبل ہی رواں مالی سال کے لیے اقتصادی ترقی کی شرح پانچ فیصد رہنے کا اندازہ لگایا تھا۔ یہ شرح پچھلے گیارہ برس میں سب سے کم ہے۔

عالمی بینک کی طرف سے جاری کی گئی گلوبل اکنامک پراسپکٹس رپورٹ کے مطابق اقتصادی ترقی کی شرح میں یہ گراوٹ 2008-09 کی عالمی کساد بازاری کے وقت کی 3.2 فیصد کی ترقی کی شرح کے بعد سب سے کم ہے۔

دریں اثنا وزیر اعظم نریندر مودی نے آج بھار ت کے بڑے ماہرین اقتصادیات کے ساتھ ایک میٹنگ کی اور ان سے اپیل کی کہ اگر انہیں حکومت کی اقتصادی پالیسیوں میں کوئی خامی نظر آئے تو اس کی نشاندہی کریں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اگر اقتصادی پالیسی میں کوئی خامی ہے تو حکومت اس میں سدھار کرنے کے لیے تیار ہے۔

Indien Priyanka Gandhi
تصویر: Getty Images/AFP

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اور متعدد ماہرین اقتصادیات مودی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور ان میں فوراً سدھار کا مشورہ دیتے رہے ہیں۔ کانگریس پارٹی کے ایک رہنما نے آج طنز کرتے ہوئے ٹوئیٹ کیا، ”کانگریس کا پچھلا انتخابی منشور پڑھ لیجیے آپ کو مشورے مل جائیں گے۔"

آج کی میٹنگ میں وزیرداخلہ امیت شاہ اور دیگر وزراء کے علاوہ منصوبہ بندی کے ادارے نیتی آیوگ کے ڈپٹی چیئرمین اور سی ای او بھی شامل تھے۔ تاہم وزیر خزانہ نرملا سیتارمن میٹنگ میں موجود نہیں تھیں۔

وزیر اعظم نے اس سے قبل پیر چھ جنوری کو بھارت کے چوٹی کے گیارہ صنعت کاروں کے ساتھ بھی ملک کی اقتصادی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ اس میں ایشیاء کے امیر ترین بزنس مین مکیش امبانی اور رتن ٹاٹا وغیرہ شامل تھے۔

اپوزیشن جماعتوں نے ملک کی بگڑتی ہوئی اقتصادی صورت حال کے لیے پوری طرح مودی حکومت کی مبینہ غلط پالیسیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

کانگریس کی جنرل سیکرٹری پریانکا گاندھی نے آج ایک ٹوئیٹ کر کے کہا کہ حکومت کو سب سے زیادہ توجہ معیشت پر دینی چاہیے تھی لیکن معیشت میں اصلاح کے معاملے کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔ جی ڈ ی پی کے اندازے بتاتے ہیں کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں اور اس کا سب سے زیادہ اثر تاجروں، غریبوں، یومیہ مزدوروں اور روزگار کے مواقع پر پڑ رہا ہے۔"

اقتصادی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے بھارتی معیشت اس وقت گزشتہ 42 برسوں میں سب سے خراب حالت سے گزر رہی ہے اور حالات کو سدھارنے کے لیے حکومت کو حقیقت پسندی سے کام لینا پڑے گا۔ وزیر اعظم نریندر مودی 2019ء میں جب دوبارہ اقتدار میں آئے تو انہوں نے عوام کے سامنے آنے والے مہینوں میں ملک کی معیشت کی ایک انتہائی خوشنما تصویر پیش کی تھی۔ لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ صورت حال پر قابو پانے کے لیے حکومت کو بیرونی قرضے لینا پڑ رہے ہیں۔ پچھلے سال ہی حکومت نے 22 بلین ڈالر کا قرض لیا جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔

گلوبل ریٹنگ ایجنسی ایس اینڈ پی نے گزشتہ ماہ وارننگ دی تھی کہ اگر بھارت کی اقتصادی حالت میں سدھار نہیں ہوا تو اس کی ریٹنگ گھٹ سکتی ہے۔

امریکا اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی کا اثر بھی بھارت کی معیشت پر پڑے گا اور اگر وہاں عدم استحکام کی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو بھار ت بھی اس سے براہ راست متاثر ہوگا۔

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔