1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خاشقجی کا قتل: سعودی مقدمے کی کھلے بندوں سماعت کا مطالبہ

28 مارچ 2019

اقوام متحدہ نے مطالبہ کیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے ترکی کے شہر استنبول کے سعودی قونصل خانے میں خوفناک قتل کے مقدمے میں گیارہ مشتبہ ملزمان کے خلاف سعودی عرب میں کی جانے والی عدالتی سماعت کو پبلک کیا جائے۔

https://p.dw.com/p/3FqTg
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، دائیں، اور ریاض حکومت کے ناقد مقتول صحافی جمال خاشقجی

سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا سے جمعرات اٹھائیس مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق عالمی ادارے کی ایک اعلیٰ اہلکار اور انسانی حقوق کی ماہر نے آج مطالبہ کیا کہ قدامت پسند عرب بادشاہت سعودی عرب میں اس قتل کے 11 مشتبہ ملزمان کے خلاف عدالتی کارروائی جس راز داری سے کی جا رہی ہے، وہ بین الاقوامی معیارات سے قطعاﹰ مطابقت نہیں  رکھتی اور یہ سماعت خفیہ نہیں ہونا چاہیے۔

یہ بات اقوام متحدہ کی ماورائے عدالت انسانی ہلاکتوں کے موضوع پر خصوصی وقائع نگار ایگنیس کالامارد نے جنیوا سے اپنے جمعرات کو جاری کردہ ایک بیان میں کہی۔ ایگنیس کالامارد اس بین الاقوامی تفتیشی ٹیم کی سربراہ بھی ہیں، جو گزشتہ برس اکتوبر میں ترک شہر استنبول کے سعودی قونصل خانے میں ریاض حکومت کے ناقد صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے واقعے کی چھان بین کر رہی ہے۔

کالامارد نے سعودی عرب کی حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ ان تمام 10 مشتبہ ملزمان کے نام بھی جاری کرے جنہیں اس قتل کے بعد شروع میں ہی گرفتار کر لیا گیا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی بتائے کہ ان دس مشتبہ ملزمان کا کیا بنا۔

Türkei | Fall Khashoggi
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/L. Pitarakis

 ایگنیس کالامارد نے اپنے اس بیان میں کہا، ’’یہ سمجھتے ہوئے سعودی حکومت شدید غلطی کر رہی ہے کہ اس مقدمے کی اس طرح کارروائی، جیسے وہ اب تک کی جا رہی ہے، بین الاقوامی برادری کو مطمئن کر دے گی۔‘‘

TIME's Person of the Year 2018 | Jamal Khashoggi
تصویر: Reuters/Time Magazine

انہوں نے واضح طور پر کہا کہ اس مقدمے کی کارروائی کے اب تک معلوم طریقہ کار کے تحت نہ تو مشتبہ ملزمان کے خلاف عدالتی کارروائی کے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہونے کو کسی بھی طرح یقینی بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی عالمی برادری کو ان نتائج کے عالمی معیار کے مطابق ہونے کے بارے میں مطمئن کیا جا سکتا ہے، جو اس مقدمے کے اختتام پر حاصل کیے جائیں گے۔

جمال خاشقجی کے قتل کے سلسلے میں سعودی دفتر استغاثہ نے گزشتہ برس نومبر میں کہا تھا کہ اس قتل کے 11 مشتبہ ملزمان کے خلاف فرد جرم عائد کر دی گئی تھی۔ ان ملزمان کے نام بھی ظاہر نہیں کیے گئے تھے۔

ان ملزمان میں مبینہ طور پر پانچ ایسے مشتبہ افراد بھی شامل ہیں، جنہیں ممکنہ طور پر سزائے موت سنائی جا سکتی ہے۔ کل گیارہ میں سے ان پانچ ملزمان پر یہ الزامات ہیں کہ انہوں نے یا تو جمال خاشقجی کے قتل کا براہ راست حکم دیا تھا یا پھر وہ ذاتی طور پر اس خوفناک جرم کے مرتکب ہوئے تھے۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ایک سابق اعلیٰ مشیر سعود القحطانی کو اسی قتل کے بعد ان کے عہدے سے برطرف بھی کر دیا گیا تھا۔

وہ ان گیارہ مشتبہ مزمان میں شامل نہیں ہیں۔ جمال خاشقجی کے اہل خانہ نے اس بارے میں گزشتہ اتوار کو روئٹرز کو بتایا تھا کہ ریاض حکومت نے یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ اس قتل کے مجرمان کو سزائیں دے گی۔ لیکن اس کے باوجود اب تک اس مقدمے کی کارروائی کو مکمل طور پر خفیہ رکھا جا رہا ہے۔

م م / ع ح/ روئٹرز

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں