1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حکومتی سرپرستی ميں تشدد کرنے والے بالآخر انصاف کے کٹہرے ميں

23 اپریل 2020

شام ميں صدر بشار الاسد کے خفيہ دستوں کے دو مشتبہ ارکان کے خلاف جرمنی ميں عدالتی کارروائی شروع ہو گئی ہے۔ ان پر اپنے ہی ملک کے ہزاروں افراد پر سنگين نوعيت کا تشدد کرنے کا الزام ہے۔

https://p.dw.com/p/3bJFd
Syrien Anwar Raslan Prozess
تصویر: AFP/T. Lohnes

خانہ جنگی کے شکار ملک شام کی خفيہ پوليس کے دو مشتبہ ارکان آج جرمنی کی ايک عدالت ميں پيش ہوئے۔ ان پر دمشق حکومت کے زير انتظام حراستی مراکز ميں کردار ادا کرنے کا الزام ہے جہاں انتظاميہ کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو تشدد کا نشانہ بنايا جاتا تھا۔ انوار آر اور اياد اے کے خلاف يہ مقدمہ دنيا بھر ميں اپنی نوعيت کا اولين مقدمہ ہے۔ يہ پہلا موقع ہے کہ شامی حکومت کے کسی سابق اہلکار کے خلاف بيرون ملک انسانيت کے خلاف جرائم کا مقدمہ چلايا جا رہا ہے۔

ستاون سالہ انور آر اور تينتاليس سالہ اياد اے کو گزشتہ برس گرفتار کيا گيا تھا۔ ان دونوں کے بارے ميں استغاثہ کا الزام ہے کہ وہ الخطيب نامی حراستی مرکز، جسے برانچ 251 کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، ميں ملوث تھے۔ انوار آر پر الزام ہے کہ وہ اس مرکز کا سربراہ تھا اور يوں انسانيت کے خلاف جرائم کا مرتکب ہوا۔ اس پر کم از کم اٹھاون افراد کے ريپ اور قتل کا الزام ہے جب کہ وفاقی استغاثہ جسمانی تشدد کے لگ بھگ چار ہزار کيسز ميں اس کا تعلق جوڑتی ہے۔ اياد اے پر الزام ہے کہ وہ اس دستے ميں شامل تھا، جو اپوزيشن مظاہرين کو پکڑ کر لاتا تھا۔

اس مرکز ميں تشدد کا شکار بننے والے نو افراد استغاثہ کا حصہ ہيں جبکہ درجنوں ديگر گواہوں کے طور پر عدالتی کارروائی ميں شامل ہوں گے۔ ان سب کو يورپی سينٹر برائے آئينی و انسانی حقوق کی حمايت حاصل ہے۔ جرائم ثابت ہونے پر انوار آر کو عمر قيد جبکہ اياد اے کو پندرہ برس سزائے قيد سنائی جا سکتی ہے۔ دونوں ملزمات حراست ميں ہيں۔ ان کے خلاف يہ کيس چند ماہ تک چکے گا۔

شام کی خونريز خانہ جنگی ميں حکومت کے کسی فريق کے خلاف يہ اولين مقدمہ علامتی حيثيت رکھتا ہے۔ عالمی تنظيميں شامی تنازعے کے تمام فريقين پر انسانيت کے خلاف اور جنگی جرائم کا الزام عائد کرتی ہيں۔ ہيومن رائٹس واچ سے وابستہ بلقيس جرح کہتی ہيں کہ انصاف کے حصول کے ليے ديگر دروازے بند ہونے کے سبب شام ميں تشدد کے متاثرين کے ليے يورپ ميں عدالتی کارروائی اميد کی کرن ہے۔

’شام کی جیلیں خواتین قیدیوں کے لیے جہنم‘

ع س / ع ت، نيوز ايجنسياں