حکومت کا نیا قانون، قومی سلامتی کا لفظ ایک خطرہ؟
24 جنوری 2025اس قانون سازی کا اہم پہلو ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی (ڈی آر پی اے) کا قیام ہے، جسے غیر قانونی مواد ہٹانے، سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے اور خلاف ورزیوں پر جرمانے عائد کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ حکومت پیکا ایکٹ کے ذریعے بظاہر تو غلط خبروں کو روکنا چاہتی ہے لیکن بل کی مبہم زبان ظاہر کرتی ہے کہ بل صحافیوں کو ایک دھمکی ہے اور حکومت کسی بھی بات کو فیک یا قومی سلامتی کے خلاف کہہ کر کسی کو بھی سزا دے سکتی ہے۔
ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ حکومت ایک طرف تو فیک نیوز اور پراپیگنڈا روکنے کی بات کرتی ہے لیکن دوسری طرف معلومات کے بہاؤ میں روڑے بھی اٹکائے جاتے ہیں اور صحیح معلومات دیے بغیرملک میں افواہوں کی گردش کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔ حکومت کی کسی بھی ویب سائٹ پر کسی مسئلے یا فیصلے سے متعلق مکمل معلومات نہیں ملتیں اور نہ ہی حکومت اور اس کے ادارے کسی بھی موضوع پر پوچھے گئے سوالات کا جواب دیتے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کے یہ قانون حکومت نے صرف اپنے مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے بنایا ہے۔
سینئیر اینکر اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کہتی ہیں، ''صحیح معلومات دینا حکومت کا فرض ہے اور معلومات کے بہاؤ کو یقینی بنائے بغیر غلط معلومات کے فروغ کو روکنا بہت مشکل ہے۔‘‘
صحافیوں کا یہ بھی شکوہ ہے کہ حکومتی اداروں کے ترجمان جو قانون کے تحت جواب دینے کے پابند ہیں وہ بھی عموما بہت سے سوالوں کا جواب دینے سے گریز کرتے ہیں۔
حکومت نے نیشنل اسمبلی میں کیا قانون پاس کیا ہے اور اس کے اہم پہلو کیا ہیں؟
قانون میں حالیہ کی گئی ترمیمات کے تحت غیر قانونی مواد کی تعریف کو وسعت دی گئی ہے، جس میں تشدد، نفرت، بدنامی کو فروغ دینے یا قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والا مواد شامل ہے۔ پاس کیے گئے بل کے تحت حکومت کو ایسی ویب سائٹس، ایپلیکیشنز یا مواصلاتی چینلز بلاک کرنے کا اختیار دیا گیا ہے جو ان اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
نیشنل اسمبلی سے پاس کردہ اس قانون میں جسے ابھی سینیٹ کی منظوری درکار ہے، جھوٹی معلومات پھیلانے پر سخت سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں، جن میں تین سال تک قید اور بیس لاکھ روپے تک جرمانہ شامل ہے۔ مزید برآں، اس قانون کے تحت آن لائن جرائم سے متعلق کیسز کو جلد از جلد نمٹانے کے لیے ایک نیا سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل بھی قائم کیا جائے گا، جو 90 دن کے اندر فیصلے کرنے کا پابند ہوگا۔
مبہم الفاط
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ تشدد، نفرت، بدنامی اور خاص طور پر قومی سلامتی والے الفاظ مبہم ہیں اور کوئی بھی ان کی زد میں لایا جا سکتا ہے۔ سینئیر وکیل حامد خان کہتے ہیں، ''یہ نیشنل سکیورٹی والا لفظ ہمیشہ سے اس ملک میں استعمال ہوتا آیا ہے اور یہ جہاں استعمال ہو اس کا مقصد ہی بد نیتی ہے۔ باقی جو لفظ استعمال کیے گئے ہیں وہ بھی مبہم ہیں اور ان کی طاقت ور حلقے اپنی مرضی کے مطابق تشریح کریں گے اور کر رہے ہیں۔‘‘
ملک میں بنائے گئے ہر قانون اور آئین میں بھی بغیر تشریح کیے قومی سلامتی کے لفظ کا استعمال ملک کے سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں میں ہمیشہ بحث کا مرکز رہا ہے اور مختلف لوگ اس کی زد میں آتے رہے ہیں۔ عاصمہ شیرازی کہتی ہیں، ''قومی سلامتی والا حرف ہمیشہ سے غلط استعمال ہوتا آیا ہے اور مزید ہو سکتا ہے۔ کل اگر میں کسی جنرل کی کرپشن پر خبر کر دوں تو کوئی بعید نہیں کہ اسے قومی سلامتی کا مسئلہ بنا کر پیش کر دیا جائے۔‘‘
جھوٹی معلومات پر سزا
ماہرین کا کہنا ہے کہ جھوٹی معلومات کا فروغ نہیں ہونا چاہیے، یہ تو ایسی بات ہے جو سب مانتے ہیں لیکن بحث اس بات پر ہے کہ کیا اس کے لیے اس قانون کی ضرورت ہے۔ حامد خان اور عاصمہ شیرازی اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ ملک میں ہتک عزت کا قانون پہلے سے موجود ہے اور اس کے کیس بہت لمبا عرصہ چلتے ہیں، حکومت اس پر عدالتوں کو پابند کرے کے 90 دن میں فیصلہ کیا جائے اور اس کے لیے ایک نئی اتھارٹی بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ حامد خان کہتے ہیں، ’’یہ ایک شرمناک قانون ہے اور صرف میڈیا کی آزادی سلب کرنے کے لیے اور مخالف بیانیے کو دبانے کے لیے بنایا جا رہا ہے۔‘‘
ایسے قانون کے لیے کن چیزوں کا کو مد نظر رکھنا ضروری ہے
اگرچہ قومی اسمبلی میں اس بل کو بھاری اکثریت سے منظور کیا گیا، لیکن یہ ترمیمات خاص طور پر صحافیوں کے درمیان شدید تنازعے کا باعث بنی ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ یہ بل آزادی صحافت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے اور تنقیدی رپورٹنگ کو روک سکتا ہے۔
بل کے پیش ہونے پر صحافی تنظیموں نے اس کے خلاف احتجاج کیا اورنہ صرف مبہم زبان پر تنقید کی بلکہ کہا کہ میڈیا سے متعلق کوئی بھی قانون میڈیا کے نمائیندوں کو اعتماد میں لیے بغیر بنانا بنیادی زیادتی ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ نے پیکا قانون پر تنقید کرتے ہوئے کچھ سوالات اٹھائے، ''جھوٹی خبروں کا فیصلہ کون کرے گا؟ اس قانون کے تحت اپیل صرف سپریم کورٹ میں کی جا سکے گی اور نچلی عدالتوں کو ایسے کیسز سننے کا اختیار نہیں ہوگا، جس کا مطلب ہے کہ متاثرہ افراد کو اپنی باری کے لیے طویل انتظار کرنا پڑے گا۔ بیس لاکھ روپے جرمانہ اور تین سال تک کی قید، حتیٰ کہ نیت پر بھی سزا دی جا سکتی ہے، لیکن نیت کا فیصلہ کون کرے گا؟‘‘
افضل بٹ نے مزید کہا کے وہ خود بھی جھوٹی خبروں کے خلاف ہیں، لیکن حکومت کو متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر قابل قبول حکمت عملی بنانا چاہیے تھی۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس قانون کے مبہم نکات کا حکام غلط استعمال کر سکتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ چونکہ سینیٹ نے ابھی بل پاس نہیں کیا اوراسے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا ہے، اس لیے کمیٹی ان کو اعتماد میں لے گی۔