1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حکومت اپوزیشن کشیدگی: پاکستانی میڈیا کیا کر رہا ہے؟

25 اپریل 2022

پاکستان میں جاری سیاسی بحران میں ملک کا میڈیا بری طرح تقسیم ہو چکا ہے اور اپنے اپنے مخالفین کی طرف ان کی لفظی گولہ باری میں تیزی آ گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/4APiY
Pakistan Islamabad | Aiwan-e-Sadr - "President House"
تصویر: Muhammad Reza/AA/picture alliance

 

پاکستانی میڈیا پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستانی میڈیا سابق وزیراعظم عمران خان کے حامی اور مخالف گروپوں میں منقسم ہے اور سیاسی منظرنامے پر کشیدگی کے اضافے کے ساتھ ہی اب عمران خان کا حامی میڈیا ان کا زیادہ حامی ہو گیا ہے اور ان کا مخاف میڈیا ان کا زیادہ مخالف ہو گیا ہے۔

ایک سینئر تجزیہ کار عدنان عادل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مین اسٹریم میڈیا میں زیادہ تر ٹی وی چینل اور بڑے اخبارات مسلم لیگ نون اور موجودہ حکومت کو سپورٹ کر رہے ہیں لیکن اس میڈیا کا ایک چھوٹا حصہ عمران خان کی حمایت کر رہا ہے۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر عمران خان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ پاکستان میں موبائل استعمال کرنے والے کروڑوں نوجوان سوشل میڈیا پر عمران خاں کا بیانیہ آگے بڑھا رہے ہیں۔  

چند دن پہلے عمران خان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر انہی نوجوان صارفین کی مدد سے ایک ٹوئٹر سپیس کو ڈیجیٹل 'جلسے‘ میں بدل دیا تھا اور یوں اس جماعت نے گھر بیٹھے ایک لاکھ 65 ہزار افراد کا 'آن لائن جلسہ‘ منعقد کیا تھا۔

پی ٹی آئی کا 26واں یوم تاسیس: رجحانات اور مستقبل

پاکستان: معیشت کو سنگین چینلجز کا سامنا

کیا پاکستانی میڈیا آزاد ہے؟

عدنان عادل بتاتے ہیں کہ پاکستان کا میڈیا حقیقی معنوں میں کبھی بھی آزاد نہیں رہا ہے۔ یہاں اسٹیبلشمنٹ، مذہبی جماعتوں اور اشتہاری پارٹیوں سمیت بہت سے گروہوں کی طرف سے میڈیا پر دباؤ آتا رہا ہے لیکن آج کل پاکستانی سیاست کے حوالے سے کوئی زیادہ دباؤ دیکھنے میں نہیں آ رہا ہے۔ پاکستان میں سیاسی موسم تبدیل ہو رہا ہے۔ پاکستانی میڈیا نے بھی اپنی آنکھیں ماتھے پر رکھ لی ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر میڈیا مالکان وہ لوگ ہیں جنہوں نے بہت سے دوسرے کاروبار بھی شروع کر رکھے ہیں وہ اپنے کاروباری مفادات کے لیے اور حکومت سے مراعات کے حصول کے لیے حکومتی خوشنودی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ بہت سے میڈیا مالکان اشتہارات کے حصول کے لیے بھی سمجھوتا کرنے پر مجبور ہیں۔ ان حالات میں سوشل میڈیا نے مین اسٹریم میڈیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور ٹرینڈز کی سیاست اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔

کون لوگ مشکل میں ہیں؟

تجزیہ نگاروں کے بقول وہ صحافی اور دفاعی تجزیہ نگار جو اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر عمران حکومت کی حمایت کر رہے تھے۔ اب اسٹیبلشمنٹ کے ''نیوٹرل‘‘ ہو جانے کے بعد ان کو سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ وہ عمران خان کی حمایت جاری رکھیں یا پھر اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی کو سپورٹ کریں۔ کئی ایسے تجزیہ نگار آج کل ٹی وی چینلوں پر آنے سے گریز کر رہے ہیں۔

تازہ صورتحال میں موجودہ حکومت کو بھی یہ نقصان ہوا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر سرگرم لوگوں کے خلاف حالیہ کریک ڈاون کے باوجود سوشل میڈیا پر اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو نہیں رکوا سکی۔ پاکستان میں موجود لوگوں پر تو دباؤ ڈالا جا سکتا ہے لیکن اوورسیز پاکستانیوں میں موجود غصے سے بھرے ہوئے عمران خان کے حامیوں کو روکنا بہ ظاہر ممکن نہیں۔ بات صرف موجودہ حکومت تک ہی محدود نہیں بلکہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو بھی اس وقت سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر تنقید کا سامنا ہے۔

وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سے ملیے!

پروفیشنل ازم کی پامالی

ملک میں جاری سیاسی محاذآرائی میں اعلیٰ صحافتی اقدار بری طرح پامال ہو رہی ہیں۔ ماہرین کے بقول ایڈیٹر کا عہدہ پہلے ہی اناڑی اخباری مالکان کے پاس جا چکا ہے۔ حقائق تک رسائی حاصل کرنا، دستیاب حقائق کو پرکھنا اور معروضیت پر مبنی ایک متوازن سٹوری تیار کرنا اب میڈیا کی ضرورت ہے اور نہ ہی مالکان کی۔ خبر کی کوالٹی پر خبر کی رفتار کو ترجیح دی جا چکی ہے اور بغیر تصدیق کے بازی لے جانے کے چکر میں ''بریکنگ نیوز‘‘ چلانے پر توجہ بڑھ گئی ہے۔

فیک نیوز کی بھرمار

سیاسی کشیدگی کے ماحول میں عام لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے جعلی خبریں بھی گھڑی جا رہی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری اپنی کتاب کی تقریب رونمائی کے لیے بھارت گئے تو شیوسینا کے احتجاجی کارکنوں نے ان کے میزبان ستیندر کلکرنی کہ منہ پر کالی سیاہی پھینک دی۔ کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا پر اس تصویر کو لے کر کہانی گھڑی کہ سری لنکا کے چیف جسٹس کے انصاف نہ کرنے پر وہاں کے لوگوں نے ان کا منہ کالا کر دیا۔ اسی طرح پاکستانی فوج کے بعض ریٹائرڈ افسران کی ویڈیوز اور آوازوں میں جعل سازی کرکے سوشل میڈیا پر پوسٹیں چلائی گئیں۔

ابھی کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے سابق وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی کے انتقال کی جھوٹی خبر پر پاکستان کے صدر عارف علوی نے تعزیتی ٹویٹ بھی کر دیا تھا بعد ازاں انہیں درست صورتحال معلوم ہونے پر یہ ٹویٹ واپس لینا پڑا تھا۔

میڈیا یا لاوڈ اسپیکر؟

ممتاز تجزیہ نگار حبیب اکرم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اصولی طور پر میڈیا کو کہی سنی باتیں آگے پہنچا کر لاوڈ اسپیکر نہیں بن جانا چاہیے۔ بلکہ حقائق کی چھانٹ پھٹک کے بعد ہی مستند اور معیاری خبریں پیش کرنا چاہیئں۔ ان کے بقول حالیہ دنوں میں میڈیا نے ایسی خبریں پیش کرنے کی بجائے بڑی حد تک مختلف رہنماؤں کی آراء کو ہی بیان کیا ہے۔

بلوچستان ٹائمز سے وابستہ صحافی شاذیہ محبوب کہتی ہیں کہ ایک ہی واقعے کو دو مختلف ٹی وی چینل اس طرح بیان کرتے ہیں کہ دیکھنے والا کنفیوز ہوکر رہ جاتا ہے۔ ''بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ حقائق کی جانچ پرکھ نہ تو میڈیا مالکان کا تقاضا ہے اور نہ ہی اب صحافیوں کی ترجیح رہی ہے۔ سچ پوچھیں تو سچ بولنے اورخبروں کی صداقت پر اصرار کرنے والے صحافی اب تیزی سے تنہا ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں پارٹیوں کے من پسند اور سرکاری و مالی مفادات حاصل کرنے والے صحافی سب کو پسند ہیں اور ان کی ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے۔ ‘‘

بہت سے چھوٹے ٹی وی چینلز تو رپورٹر کو فیلڈ میں نہیں بھیجتے وہ کسی بڑے ٹی وی چینل پر آنے والی خبر کو اٹھا کر بلا خوفِ تردید اور بلا تصدیق من و عن آگے براڈ کاسٹ کر دیتے ہیں۔  

صورتحال کیسے بہتر ہو سکتی ہے؟

یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب میں میڈیا کے استاد محمد عرفان فانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں ایک نیشل ایجنڈے پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے اور میڈیا سمیت تمام ادارے قومی مفادات اور ترجیحات کا احترام کریں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا، '' ہم انسانوں کے معاشرے میں رہتے ہیں، ایک صحافی کے بھی تعصبات ہوتے ہیں وہ تنہائی میں رہ کر کام نہیں کرتا۔‘‘

 ایک ٹی وی چینل کے ایگزیکٹو پروڈیوسر غلام عباس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایک ٹی وی چینل کو دیکھ کر لگتا ہے کہ عمران خان کا سیاسی کیئریر ختم ہو چکا ہے دوسرے چینل کو دیکھ کر لگتا ہے کہ عمران خان دو تہائی اکثریت کے ساتھ دوبارہ آ رہا ہے۔ اس صورت حال نے صارفین کے جاننے کے حق کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ''اس صورتحال کی بہتری کی ذمہ داری ناظرین پر بھی عائد ہوتی ہے ان کو خاموش یا بے ہمت صارف بن کر نہیں رہنا چاہیے انہیں میڈیا کی کسی غلط بات پر متعلقہ چینل کی انتظامیہ کو لکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہیے۔‘‘