حماس کے سربراہ اور سعودی فرمانروا کی تاریخی ملاقات
17 جولائی 2015حماس کے ذرائع کے مطابق برسوں بعد اعلیٰ فلسطینی نمائندوں اور سعودی قیادت کے مابین ملاقات عمل میں آئی ہے۔ ذرائع نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو اس بارے میں بیان دیتے ہوئے کہا،’’ وفد نے سعودی فرمانروا کے ساتھ ملاقات میں فلسطینی اتحاد اور علاقائی سیاسی صورتحال کے بارے میں بات چیت کی‘‘۔
یہ ملاقات اس لیے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے کہ امریکا کی اتحادی، قدامت پسند عرب بادشاہت اور روایتی طور پر ایران کی حمایت والی فلسطینی جماعت حماس کے اعلیٰ اہلکاروں نے براہ راست مذاکرات کی ہیں۔
حماس تنظیم 2007 ء میں فلسطینی حریف گروپ الفتح کے ساتھ ایک مختصر مگر خونریز جنگ کے بعد سے غزہ پٹی پر حکمرانی کر رہی ہے۔ غزہ کے نہتے فلسطینیوں کی حفاظت کے نعرے کے ساتھ سرگرم حماس اسرائیل کے ساتھ بھی تین جنگیں لڑ چُکی ہے۔
2011 ء کی عرب بہار کے دور میں بھی حماس کو دشمنیوں اور خانہ جنگی کے سبب شدید جھٹکے لگ چُکے ہیں۔ صورتحال سب سے زیادہ پیچیدہ اُس وقت ہوئی تھی جب حماس نے اُسی سال ایران کے اتحادی، شامی صدر بشار الاسد کی سنی باغیوں کے خلاف جنگ میں اُن کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ امر حماس اور ایران کے مابین کسی حد تک تلخی پیدا ہونے کا سبب بنا تھا۔
حماس کے اکثر سینیئر لیڈر گیس کے قدرتی ذخائر سے مالا مال خلیجی ریاست قطر کی طرف کوچ کر گئے تھے تاہم قطر پر دیگر خلیجی ممالک غیر معمولی دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ انتہا پسند اسلامک گروپ حماس کی حمایت کم کر دے۔
حماس اور سعودی عرب کے تعلقات نئے سعودی فرمانرا شیخ سلمان کے رواں سال جنوری میں تخت پر براجمان ہونے کے بعد سے نسبتاً بہتر ہوئے ہیں اور سعودی بادشاہت ایک نئے انداز سے خطے میں اپنی طاقت کا اظہار کر رہی ہے۔
سعودی عرب یمن میں حوثی شیعہ باغیوں کے خلاف اتحادی افواج کی عسکری کارروائیوں کی قیادت کر رہا ہے۔ سعودی حکام اپنے تصور کے مطابق یمن میں ایران کے حامیوں اور اُس کی نظریاتی مداخلت کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ سعودی بادشاہت عرب دنیا میں اپنی سوچ اور مفادات کے مطابق حالات و واقعات پر رد عمل کا اظہار کرتی ہے اس کی تازہ ترین مثال ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام سے متعلق عالمی طاقتوں اور تہران کے مابین طے پانے والا حالیہ تاریخی معاہدہ ہے جس پر ریاض کی طرف سے گہرے تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ یہاں تک کہ سعودی میڈیا میں ایران کی نیوکلیئر ڈیل کو ’عرب مفادات پر ایک کاری ضرب‘ قرار دیا گیا۔