حماس اور فتح کے مابین مصالحتی معاہدہ طے پاگیا
4 مئی 2011آج بدھ کو منعقدہ اِس تقریب میں تیرہ فلسطینی تنظیموں نے شرکت کی، جن میں حماس تنظیم کے رہنما خالد مشعل اور فلسطینی صدر اور الفتح تنظیم کے سربراہ محمود عباس بھی شامل تھے۔ خالد مشعل اور محمود عباس کی سن 2006 کے بعد یہ پہلی ملاقات تھی۔ خالد مشعل کا کہنا تھا کہ وہ ایک ایسی آزاد فلسطینی ریاست کا قیام چاہتے ہیں، جس کا دارالحکومت یروشلم ہو۔
فلسطینی صدر محمود عباس کا اس موقع پر کہنا تھا کہ انہوں نے اندرونی تقسیم کا سیاہ باب ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا ہے۔ کیا حماس اور فتح کے درمیان مصالحتی معاہدہ قائم رہ سکے گا، اس بارے میں ایک فلسطینی خاتون کا کہنا ہے، ’’میرے خیال میں اس مرتبہ یہ معاہدہ قائم رہے گا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ فلسطینی عوام حماس اور فتح کی لڑائی سے تنگ آ چکے ہیں۔ یہ معاہدہ چل سکتا ہے۔‘‘
قاہرہ میں مصری خفیہ ادارے کے ہیڈ کوارٹر میں ہونے والی اس تقریب کے موقع پر امریکہ، یورپی یونین اور عرب لیگ کے نمائندے بھی موجود تھے۔ اس مصالحتی معاہدے کے تحت غزہ اور مغربی اردن میں الگ الگ حکومتوں کا سلسلہ ختم ہو جائے گا اور ایک سال کے اندر اندر نئےانتخابات کروائے جائیں گے۔
دوسری جانب اس معاہدے کے بعد فلسطینی عوام نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ ایک فلسطینی کا کہنا تھا، ’’میں پر امید ہوں۔ میں ایک ایسا فلسطینی ملک دیکھنا چاہتا ہوں، جس کا دارالحکومت یروشلم ہو ،جہاں نہ تو حماس ہو اور نہ ہی فتح۔‘‘
اسرائیل نے ایسی کسی حکومت کو ناقابل قبول قرار دیا ہے، جس میں حماس شریک ہو۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ فلسطینی تنظیموں کے مصالحتی معاہدے سے ''اسرائیلی فلسطینی امن عمل کو زبردست دھچکا لگا ہے‘‘۔
یروشلم میں سابق برطانوی وزیر اعظم اور خصوصی مندوب برائے مشرقِ وُسطیٰ ٹونی بلئیر سے میٹنگ کے بعد گفتگو کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا، ''اُس حکومت کے ساتھ کس طرح امن معاہدہ کیا جا سکتا ہے، جس کا آدھا حصہ اسرائیل کی تباہی کا اعلان کر چکا ہو اور اسامہ بن لادن کی تعریف کرتا ہو‘‘۔
اسرائیلی وزیراعظم نے فلسطینی صدر محمود عباس سے حماس کے ساتھ تمام معاہدے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری جانب قاہرہ میں الفتح تنظیم کے وفد کے سربراہ اعظم الاحمد نے اسرائیلی وزیراعظم کے اس بیان کو 'ناقابل قبول دخل اندازی‘ قرار دیا ہے۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا، اسرائیل نہیں چاہتا کہ فلسطینی دھڑے متحد ہوں اور یہ کہ وہ فلسطینی تننظیموں میں تقسیم کو فروغ دینا چاہتا ہے۔
سن دوہزار سات میں حماس اور الفتح میں اختلافات انتہائی زیادہ ہو گئے تھے۔ ان اختلافات کے بعد حماس نے غزہ پٹی کا کنٹرول سنبھالتے ہوئے وہاں اپنی علیٰحدہ حکومت قائم کر لی تھی۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: امجد علی