1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حزب اللہ کے ساتھ ممکنہ جنگ، اسرائیلی مشقیں

8 مارچ 2013

اسرائیلی فوج نے لبنان کےمسلح گروپ حزب اللہ کےخلاف کسی ممکنہ جنگ کے لیے اپنے جنوبی ریگستان کے ایک علاقے میں جنگی مشقیں شروع کر دی ہیں۔

https://p.dw.com/p/17tRd
تصویر: Reuters

Revivim کے نزدیک ہونے والی ان جنگی مشقوں میں اسرائیلی ریزرو فورسز کے ہزاروں سپاہی حصہ لے رہے ہیں۔ ان جنگی مشقوں کا مقصد فوجیوں کو حزب اللہ کے ساتھ کسی بھی ممکنہ لڑائی کے لیے تیار کرنا ہے۔ ان مشقوں میں اسرائیلی فوجیوں کو دفاعی لحاظ سے ایک ایسی اہم فرضی پہاڑی پر قبضہ کرنے کا کام سونپا گیا ہے، جہاں سے نشیب میں واقع ایک لبنانی گاؤں نظر آتا ہو۔ ان جنگی مشقوں میں فوجیوں کے علاوہ ٹینکز بھی حصہ لے رہے ہیں۔

حزب اللہ کے ساتھ 2006ء میں ہونے والی جنگ کے بعد سے اسرائیل نے اپنی دفاعی صلاحیت میں مزید اضافہ کیا ہے۔ اسرائیلی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اب

انٹیلی جنس اور نگرانی کے لیے جدید ترین ڈرونز ہیں۔ کسی بھی زمینی حملے سے نمٹنے کے لیے بکتر بند گاڑیوں کو اپ گریڈ کیا گیا ہے۔ اسی طرح ان کے پاس راکٹ گرانے کے لیے جدید ترین ڈیفنس سسٹم بھی موجود ہے۔

اسلامی عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کے شامی صدر بشارالاسد کے ساتھ قریبی روابط ہیں اور اسرائیلی فوج کے اعلیٰ حکام کا خیال ہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی کے اثرات ان کے ملک پر بھی پڑ سکتے ہیں۔

شامی صدر کے اقتدار سے ہٹنے یا پھر حزب اللہ کے دوسرے اہم سرپرست ایران پر کسی اسرائیلی حملے کے نتیجے میں علاقے میں ایک مکمل جنگ چھڑ سکتی ہے۔ پچھلی جنگ سے لے کر اب تک اسرائیل اور لبنان کی سرحد پر کافی حد تک خاموشی رہی ہے لیکن اس دوران حزب اللہ نے اپنے ہتھیاروں کی کھیپ میں کئی گنا اضافہ کر لیا ہے اور اسرائیل کے خلاف اپنی درپردہ کارروائیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔

Symbolbild Waffenstillstand im Gazastreifen
تصویر: AP

اسرائیل کے ایک سینئر فوجی کمانڈر نے حزب اللہ کے ساتھ ممکنہ جنگ کے حوالے سے کہا کہ شام میں موجودہ صورت حال کی وجہ سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

2006ء میں اسرائیل کے کئی ہفتوں تک جاری رہنے والے فضائی حملوں میں حزب اللہ

کے سینکڑوں جنگجوؤں سمیت ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان حملوں میں اہم تنصیبات کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ لیکن یہ شدید فضائی حملے بھی حزب اللہ کو اسرائیل کے اندر چار ہزار سے زائد راکٹ فائر کرنے سے نہ روک سکے تھے۔ یہ لڑائی بالآخر اقوام متحدہ کی مداخلت سے ختم ہوئی۔ اگرچہ اس جنگ بندی کے معاہدے پر کافی حد تک عمل کیا گیا لیکن اسرائیل کا کہنا ہے کہ حزب اللہ نے بڑے منظم طریقے سے اپنے ہتھیاروں میں اضافہ کیا ہے اور اب اس کے پاس پہلے سے بھی زیادہ تباہ کن میزائل اور راکٹ ہیں۔ یہ جدید ہتھیار یہودی ریاست کے کسی بھی حصے کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اسرائیلی فوجی حکام کو اکثر یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ حزب اللہ کے ساتھ جنگ کسی بھی وقت چھڑ سکتی ہے۔

اسرائیلی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ شام میں نازک صورت حال اور اندرونی مسائل کی وجہ سے حزب اللہ اس وقت کسی قسم کی جارحیت کے لیے تیار نہیں ہے لیکن شام میں

جاری خانہ جنگی اور اسرائیل کی ایران کے ساتھ کشیدگی کی وجہ سے صورت حال کسی بھی وقت جنگ کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ اعلٰی فوجی منصوبہ سازوں کا خیال ہے کہ اقتدار پر بشارالاسد کی گرفت کمزور پڑ چکی ہے اور حزب اللہ اس صورت حال سے توجہ ہٹانے کے لیے ایک نیا محاذ کھولنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ اسرائیل کو یہ بھی خدشہ ہے کہ شام اپنے کیمیائی اور دیگر جدید ہتھیار بھی حزب اللہ کو منتقل کر سکتا ہے۔

ایران پر کسی اسرئیلی حملے کی صورت میں بھی حزب اللہ جوابی کارروائی کر سکتا ہے۔ اسرائیل نے بارہا اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کے لیے تیار ہے۔

حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اسرائیل کے ساتھ جنگ کے لیے ہر طرح کے ہتھیار موجود ہیں اور انہیں اپنے شامی اور ایرانی اتحادیوں سے ہتھیار لینے کی ضرورت نہیں ہے۔

zh/aa(AP)