حج کے پرعزم سعودی منصوبے کو ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا
22 جون 2023بین الاقوامی فضائی سفر کی سہولیات اور انفرااسٹرکچر میں توسیع کی وجہ سے جہاں عازمین حج کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے وہیں ماحولیاتی تبدیلیوں نے کئی دیگر خدشات بھی بڑھا دیے ہیں۔
کورونا وبا کی وجہ سے عائد پابندیوں کے بعد سے پہلی مرتبہ اگلے ہفتے دنیا بھر کے عازمین کسی طبی پابندیوں کے بغیر حج کریں گے۔ سال 2019 میں تقریباً 25 لاکھ مسلمانوں نے فریضہ حج ادا کیا تھا اور اس سال 20 لاکھ سے زائد عازمین حج کی آمد متوقع ہے۔
ولی عہد محمد بن سلمان کے سعودی معیشت میں تبدیلی کے پرعزم منصوبے، جسے وژن 2030 کا نام دیا گیا ہے، کے تحت سال بھر میں تین کروڑ افراد حج اور عمرے کے لیے آسکیں گے۔ یہ کورونا وبا سے پہلے کی تعداد کے مقابلے ایک کروڑ سے زیادہ ہے۔
لیکن اس کے لیے دو قدیم ترین شہر مکہ اور مدینہ میں ہوٹلوں اور انفرااسٹرکچر کے بڑے پیمانے پر توسیع درکار ہے، جہاں پہلے ہی فلک بوس عمارتوں اور شاپنگ مال کا جال نظر آتا ہے۔ اضافی عازمین کے لیے طویل دوری کی مزید پروازوں، مزید بسوں اور کاروں، مزید پانی اور بجلی کی ضرورت پڑے گی۔
ایسوسی ایٹیڈ پریس نے اس حوالے سے متعدد سعودی حکام سے ان کی رائے معلوم کرنے کی کوشش کی تاہم کسی کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا۔
حج کے ماحولیات پر اثرات
یہ واضح نہیں ہے کہ آیا حکومت نے اتنی بڑی تعداد میں عازمین کی آمد سے ماحولیات پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے کوئی مطالعہ کرایا ہے یا ان سے نمٹنے کے لیے کیا ٹھوس منصوبے بنائے گئے ہیں۔
گوکہ حکومت نے ہائی اسپیڈ ریلوے نیٹ ورک جیسے کئی اہم اقدامات کیے ہیں لیکن یہ مکہ اور مدینہ میں ٹریفک کی آلودگی کو کم کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ 300 کلومیٹر کی رفتار سے چلنے والی ٹرینیں گوکہ مسافروں کو بہت کم وقت میں جدہ سے مکہ پہنچا دیتی ہیں لیکن یہ مسجد حرام سے کئی کلومیٹر پہلے ہی رک جاتی ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ لوگوں کو یا تو کم از کم ایک گھنٹے پیدل سفر کر کے یا پھر بسوں یا کاروں کے ذریعہ وہاں پہنچنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ تمام عازمین کی جیب جدہ ایرپورٹ سے مکہ تک کا ایک طرف کا 19ڈالر کے کرایے کی متحمل نہیں ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حج کے نتیجے میں جہاں ماحولیاتی تبدیلوں پر اثرات پڑتے ہیں وہیں آنے والے دنوں میں حدت میں اضافے سے یہ بھی متاثر ہوگا کیونکہ زمین پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ گرم ہو جائے گی۔
میلبورن کی وکٹوریا یونیورسٹی میں سن 2018 کے حج کے حوالے سے کرائے گئے ایک مطالعے سے پتہ چلا کہ جن پانچ دنوں کے اندر حج کے ارکان اداکیے جاتے ہیں اس دوران 1.8ملین ٹن سے زیادہ گرین ہاوس گیسوں کا اخراج ہوا، جتنا کہ نیویارک شہر تقریباً دو ہفتوں کے دوران خارج کرتا ہے۔ گیسوں کے اخراج میں سب سے بڑی 87 فیصد حصہ داری ہوابازی کی رہی۔
حکومت کے اقدامات دیر آید لیکن درست آید
اس تحقیقاتی ٹیم کے ایک رکن عبداللہ ابو نومی کا کہنا ہے کہ سعودی حکام نے وژن 2030 کے تحت پائیداری کو بھی شامل کیا ہے جس کی رو سے عازمین، سیاحوں اور تاجروں کو راغب کرنے کے لیے قدرتی وسائل کو محفوظ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا،''چار برس قبل اگر آپ کسی سے پائیداری کے بارے میں سوال کرتے تو وہ لاعلمی ظاہر کرتا لیکن آج سب کچھ بہتر ہو رہا ہے، گوکہ ہم نے اس میں تاخیر کردی لیکن بہر حال دیر آید درست آید۔"
حج کے ارکان ادا کرنے کے دوران لاکھوں عازمین کو مسجد حرام سے لے کر منیٰ اور عرفات تک چلنا پڑتا ہے۔ انہیں جبل رحمت،جہاں پیغمبر اسلام نے آخری خطبہ حج دیا تھا، کے اطراف میں قیام بھی کرنا پڑتا ہے، کعبہ کا طواف اور رمی جمرات بھی حج کے اراکین ہیں۔ سب سے زیادہ مشکلات عمر دراز افراد کو پیش آتی ہیں۔ ایسے میں لاکھوں عازمین کو سہولیات فراہم کرنا سعودی حکومت کے لیے یقیناً ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔
سعودی حکام نے حالیہ برسوں میں حرمین شریفین کے اطراف میں بڑے بڑے پنکھے اور پانی کی ہلکی بوچھاریں کرنے والے فوارے نصب کیے ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اس لیے حکام کو آنے والے برسوں میں نئے طریقہ کار اپنانے ہوں گے۔
'گرین حج' مہم
وکٹوریا یونیورسٹی کے مطالعاتی ٹیم میں شامل ایک دیگر ماہر الفاتح الطاہر کا کہنا تھا،"ہر مسلمان زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ حج کرنا چاہتا ہے۔ لیکن گلوبل وارمنگ کی وجہ سے آنے والے برسوں میں بعض افراد کے لیے یہ زیادہ مشکل ہوجائے گا۔"
مسلمانوں کا ایک گروپ "گرین حج" کی مہم چلا رہا ہے۔اس کے تحت عازمین کو زندگی میں صرف ایک مرتبہ حج پرجانے کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے، سنگل پلاسٹک کے استعمال گریز کرنے اور شجر کاری کرکے کاربن کے اخراج سے نمٹنے پر زور دیا جارہا ہے۔
بحرین میں اربیئن گلف یونیورسٹی میں پائیداری اور اختراعات کے پروفیسر عودہ جائسی کہتے ہیں کہ "بعض اسمارٹ پالیسیوں اور ٹکنالوجی کا استعمال کرکے حج کو ماحول سے ہم آہنگ اور پائیدار بنایا جاسکتا ہے۔" ان کا خیال ہے کہ مصنوعی ذہانت کا استعمال بھی اس میں کافی مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔
پروفیسر عودہ کہتے ہیں،"نئی نسل ماحولیاتی تبدیلیوں کے مضمرات سے اچھی طرح واقف ہے، صرف طریقہ کار کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ "حج دنیا بھر کے لوگوں کے سامنے ماحولیات سے ہم آہنگ طریقہ کار کو پیش کرنے کا ایک بہترین ذریعہ بن سکتا ہے۔"
ج ا/ ص ز (اے پی)