1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حامد کرزئی اور امریکا کے تعلقات میں مزید کشیدگی کا امکان

عابد حسین29 جنوری 2014

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان صدر حامد کرزئی سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں رونما ہونے والے بعض پُر تشدد واقعات کے پس پردہ امریکی ہاتھ متحرک ہے لیکن سردست اِس حوالے سے اُن کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/1Aywj
تصویر: Getty Images

معتبر امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی منگل 28 جنوری کی اشاعت میں بتایا کہ افغان صدر کو شبہ ہے کہ گزشتہ دنوں میں رونما ہونے والے پرتشدد واقعات کا انداز تو عسکریت پسندوں کا ہے لیکن ان کے پیچھے مخفی امریکی پشت پناہی کو نظر انداز کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اخبار کے مطابق حامد کرزئی کے پاس اپنے اس شک اور شبے کو تقویت دینے کے لیے مناسب ثبوت سردست موجود نہیں ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ حامد کرزئی کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات میں مسلسل گراوٹ آ رہی ہے۔ اخبار کے مطابق کرزئی نے ایسے پرتشدد واقعات کو جمع کرنا شروع کر دیا ہے، جن کے حوالے سے وہ یہ شبہ رکھتے ہیں کہ اِن کے پیچھے امریکی ہاتھ کارفرما ہے۔ کابل میں واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ پر کسی ذمہ دار افغان حکومتی اہلکار نے ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔

Helikopter Pave Hawk HH-60
کرزئی افغانستان میں امریکی فوج کے آپریشنز پر بھی ناراضی کا اظہار کرتے ہیںتصویر: Pierre Andrieu/AFP/Getty Images

واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں کرزئی کے حوالے سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ رواں مہینے کے دوران ایک لبنانی ریسٹورنٹ پر ہونے والے خوفناک حملے میں بھی امریکی ہاتھ کو دیکھتے ہیں۔ کابل کا لبنانی ریسٹورنٹ غیر ملکیوں میں نہایت مقبول تھا۔ تاہم افغان عہدے دار نے یہ ضرور تسلیم کیا ہے کہ کابل حکومت کے پاس کرزئی کے شبے کو قوت دینے والے ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہیں۔ دوسری جانب یہ اہم ہے کہ افغانستان میں رونما ہونے والے تشدد کے واقعات کی ذمہ داری عسکریت پسند تنظیم طالبان تواتر سے قبول کرتی رہتی ہے۔

امریکی حکام نے واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ اُدھر امریکی کانگریس کے بعض اراکین نے رپورٹ کی مناسبت سے گہری تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔ امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر کارل لیوِن کا کہنا ہے کہ اب ہمیں کرزئی کے ہٹ کر غور کرنا چاہیے۔ ایک اور ری پبلکن سینیٹر کیلی ایہیاٹ نے اخبار دی ہِل کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس رپورٹ کی مناسبت سے شدید تحفظات رکھتی ہیں اور حیرت کی بات ہے کہ کرزئی اُس امریکا کے بارے میں مغالطہ آمیزی کر رہے ہیں جو افغانستان میں انتہائی اہم کردار ادا کرنے میں مصروف ہے۔

Afghanistan Stützpunkt der US-Armee in Khost
افغانستان میں رونما ہونے والے تشدد کے واقعات کی ذمہ داری عسکریت پسند تنظیم طالبان تواتر سے قبول کرتی رہتی ہےتصویر: DW/F.Zahir

اخبار کی رپورٹ میں خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ شک کے اِس نظریے کے تناظر میں شاید کرزئی باہمی سکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کرتے چلے آ رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دستخط سے انکار کر کے کرزئی یہ بھی ایک تاثر قائم کرنے کی کوشش میں ہیں کہ وہ امریکی حکومت کے کٹھ پتلی نہیں اور طالبان کو قائل کرنے کی کوشش میں کامیاب ہو جائیں گے کہ وہ مصالحتی راستے کو اپنائیں۔ اخبار کے مطابق اِس نئے شبے سے کشیدگی سے عبارت امریکی اور افغان تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہو سکتا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں یہ شامل ہے کہ کرزئی اس کا اعتراف کر چکے ہیں کہ وہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے سے باقاعدگی سے نقد رقوم وصول کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ برس سے کرزئی امریکا اور افغانستان کے درمیان باہمی سکیورٹی معاہدے پر دستخط کو مؤخر کیے ہوئے ہیں۔ اس بنیاد پر امریکا اور افغان صدر کے تعلقات سرد مہری چھائی ہوئی ہے۔ کرزئی کا خیال ہے کہ اپریل کے صدارتی الیکشن کے بعد نیا صدر اس معاہدے پر دستخط کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہو گا۔ اِس کا امکان ہے کہ کابل میں نیا صدر پانچ اپریل تک منصب صدارت پر فائز ہو جائے گا۔