1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حامد میر پر حملہ، عدالتی کمیشن کی کارروائی

رفعت سعید، کراچی28 اپریل 2014

معروف صحافی حامد میر پر ہونے والے حملے کے حوالے سے قائم عدالتی کمیشن نے آج کراچی میں شنوائی کا آغاز کیا۔ اس کارروائی سے ذرائع ابلاغ کو دور رکھا گیا۔

https://p.dw.com/p/1Bpbq
تصویر: picture-alliance/dpa

حامد میر پر ہونے والے حملے کے حوالے سے قائم عدالتی کمیشن نے آج ڈائریکٹر جنرل رینجرز، انسپکٹر جنرل سندھ پولیس، جوائنٹ ڈائریکٹر انٹیلیجنس بیورو اور ISI کے نمائندوں کو اپنے چیمبر میں علیحدگی میں بلایا۔ پاکستان کے معروف صحافی حامد میر پر ہونے والے حملے کے حوالے سے کی جانے والی کارروائی سے میڈیا سے دور رکھا گیا ہے اور یہ تک کہا گیا ہے ان افسران کو ذرائع ابلاغ سے بات کرنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔ تاہم نتیجے میں یہ چہ مگوئیاں بھی سر اٹھا رہی ہیں کہ ایسی کارروائی سوالیہ نشان چھوڑ جائے گی۔ حال ہی میں تعینات ہونے والے آئی جی سندھ اقبال محمود کے مطابق صرف حامد حملہ کیس میں ملزمان کا سراغ لگانے کے لیے ڈیڑھ لاکھ موبائل سمسز کا ڈیٹا چک کیا جاچکا ہے۔ آئی جی سندھ کے مطابق حامد میر کیس میں جیو فنکسنگ بھی کی گئی ہے اور عینی شاہدین کی مدد سے دو حملہ آوروں کے خاکے بھی بنا لیے گئے ہیں۔

pakistan anschlag, hamid mir, fahrzeug, karachi
تصویر: picture-alliance/dpa

اس حوالے سے صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ عدالتی کمیشن کا کسی ایسے نتیجے پر پہنچنا مشکل دکھائی دیتا ہے، جہاں وہ کسی کی گرفتاری کا حکم دے سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ صحافی سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا اور یہ کیس بھی اسی طرف بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔

میڈیا کے تجزیہ کار عمران شیروانی کا ڈوچے ویلے سے گفتگو میں کہنا تھا کہ یہ بھی بڑی بات ہے کہ لوگ اب کھل کر ان معاملات پر بات کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بے شک عدالت کے بند کمرے میں سوال جواب کا سلسلہ ہوا ہے، تاہم اس کے بھی دور رس نتائج نکل سکتے ہیں۔ اس لیے کہ کوئی تو ان تمام اداروں میں ایسا ہوگا جس کو اصل صورتحال کی کسی حد تک خبر ہوگی۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں صرف فوج اور اس سے متعلق ادارے ہی نہیں بلکہ میڈیا مالکان بھی ایک اہم ستون کی شکل میں ابھرے ہیں اور ان قد آور کرداروں کی لڑائی سے فائدہ عام آدمی کا ہوگا۔

پاکستان کے کئی شہروں میں اس وقت فوج کی حمایت میں مظاہرے ہورہے ہیں ۔ کیا یہ مظاہرے عوامی رائے کو پیش کر رہے ہیں، یہ ایک سوال ہے جو متعدد صحافی پوچھ رہے ہیں۔ عمران شیروانی کہتے ہیں کہ جس طرح خفیہ ادارو ں پر بغیر ثبوت کے تنقید کرنا غیر ذمے دارانہ فعل ہے اسی طرح یہ مان لینا کہ یہ مظاہرے عوامی رائے ہیں بھی کسی صحافتی اقدار کے زمرے میں نہیں آتے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ جہاں اداروں کی حیثیت، حکومت کا برتاﺅ اور میڈیا کا کردار اس پورے بحران میں عوامی بحث کا حصہ ہیں، وہیں یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ کیا ان میں سے کوئی بھی ذمے داری سے اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیر ریٹائرڈ ڈوچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے رشید ملک کہتے ہیں کہ جس طرح یورپ میں ہولوکاسٹ پر کوئی بحث نہیں ہوسکتی، اسی طرح پاکستان میں فوج اور خفیہ اداروں کے کردار پر بھی بات نہیں ہو سکتی۔