1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جہادیوں کی بحالی کے پروگراموں پر ناامیدی کے سائے

ندیم گِل16 نومبر 2014

مختلف ممالک مشرقِ وسطیٰ میں جنگوں میں حصہ لینے کے بعد لوٹنے والے جہادیوں کے خطرے سے نمٹنے کے لیے انتہاپسندی کے خاتمے کے تجرباتی پروگرام چلا رہے ہیں۔ تاہم ماہرین ان پروگراموں کی کامیابی کے امکانات پرمایوس دکھائی دیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1DoE4
تصویر: picture-allianceAP Photo

عراق اور شام میں بگڑتی ہوئی صورتِ حال اور خود ساختہ اسلامی ریاست کی بڑھتی ہوئی جہادی کارروائیوں سے متاثر ہزاروں مسلمان نوجوان ان ملکوں کا رخ کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں مختلف ملکوں کی حکومتیں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کوشاں ہیں کہ جنگوں میں حصہ لینے کے بعد انتہاپسندانہ نظریات میں لتھڑا ذہن لیے لوٹنے والوں سے پیش آنے کا بہترین طریقہ کیا ہو سکتا ہے۔

یورپی یونین میں انتہاپسندی کے خاتمے کے تجربات کرنے میں ڈنمارک سرفہرست ہے جس نے 2009ء میں شدت پسند اسلامی نظریات کا شکار بننے والے لوگوں کی بحالی کے لیے ایک پروگرام شروع کیا تھا۔

جہاد میں حصہ لینے کے بعد گھروں کو لوٹنے والے مسلمان فائٹروں کو جیلوں میں ڈالنے کے بجائے انہیں مشاورت فراہم کی جاتی ہے، ملازمتوں اور تعلیمی مواقع کی پیش کش کی جا تی ہے۔ ڈنمارک کے حکام نے مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل کے لیے پولیس، سماجی اور مذہبی رہنماؤں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا ہے۔

ایسے ہی پروگرام دیگر ملکوں میں بھی چلائے گئے ہیں جن میں انڈونیشیا، بھارت اور برطانیہ بھی شامل ہیں۔ یہ امید کی جاتی رہی ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ نرم برتاؤ سے پرتشدد انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے دُور رس نتائج برآمد ہوں گے۔

Saudi Arabien Reisepass (Symbolbild)
سعودی عرب میں جہاد ترک کرنے والوں کو پرآسائش زندگی کی پیش کش کی گئیتصویر: B. Mehri/AFP/Getty Images

سعودی عرب میں بھی ایسا ہی ایک پروگرام 2007ء میں شروع کیا گیا تھا جس کے تحت جہاد ترک کرنے والوں کو پرآسائش زندگی کی پیش کش کی گئی۔ تاہم انسدادِ دہشت گردی کے ماہرین ان پروگراموں کی کامیابی کے لیے پرامید نہیں ہیں۔

فرانس میں انسدادِ دہشت گردی کے ایک اعلیٰ اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے کہا: ’’یہ بات سمجھ لینی چاہیے، فی الحال انتہاپسندی کے خاتمے کے پروگرام بے فائدہ ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا: ’’سعودی کہتے ہیں کہ ان سے فائدہ ہو رہا ہے، لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان کی کامیابی کی شرح صرف اسّی فیصد ہے۔ نوجوان دلچسپی دکھاتے ہیں، پیسہ لیتے ہیں اور پھر یمن میں القاعدہ کے ساتھ جا ملتے ہیں۔‘‘

اس فرانسیسی اہلکار نے کہا کہ پیرس حکومت اور اس کے مغربی اتحادی دیگر ملکوں میں جہادیوں کی بحالی کی کوششوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں، لیکن وہ ان سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی نہیں کر ر ہے۔

اے ایف پی کے مطابق یہ ناامیدی بعض ملکوں کو سخت اقدامات کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ برطانیہ میں وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون جہادیوں کو سخت شرائط پر متفق نہ ہونے کی صورت میں دو سال تک ملک میں واپس آنے کی اجازت نہ دینے کے منصوبوں کا اعلان کر چکے ہیں۔

امریکا میں یونیورسٹی آف پینسلوانیا میں دہشت گردوں کی نفسیات کے ایک ماہر جان ہورگن نے بھی اس ناامیدی سے اتفاق کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈنمارک کا تجربہ دلچسپ اور تخلیقی ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اس پر تحفظات رکھتے ہیں۔