جوہری مذاکرات کا اگلا دور مشکل ہو گا، ایران
18 نومبر 2013تہران حکومت اور عالمی طاقتوں کے گروپ فائیو پلس ون کے درمیان جنیوا میں ہونے والے گزشتہ مذاکرات کسی معاہدے تک پہنچنے بغیر ہی ختم ہو گئے تھے۔ ان مذاکرات میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان امریکا، روس، چین، برطانیہ اور فرانس شامل ہیں جب کہ جرمنی بھی ان مذاکرات کا حصہ ہے۔ فریقین کے درمیان مذاکرات کا اگلا دور 20 نومبر بروز بدھ کو ہو رہا ہے۔ اس سے قبل امریکا حکام کی جانب سے عندیہ دیا گیا تھا کہ ممکنہ طور پر ان مذاکرات میں ایران کے ساتھ کوئی عبوری معاہدہ طے پا سکتا ہے، جس کے تحت ایران اپنی جوہری سرگرمیوں کو روکے گا جس کے عوض اس کے خلاف عالمی پابندیوں میں قدرے نرمی کی جائے گی۔
ایران کے اعلیٰ جوہری مذاکرات کار عباس عراقی نے اتوار کے روز اپنے بیان میں کہا کہ مذاکرات کا اگلا دور مشکل ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی معاہدہ طے نہیں پائے گا، جس میں ایرانی قوم کے حقوق کا تحفظ نہ کیا جائے اور انہیں جوہری پروگرام اور یورینیم کی افزودگی سے روکا جائے۔
اسرائیل اور مغربی ممالک کو شبہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف ہے جب کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کو پرامن قرار دیتا ہے۔
اتوار کے روز فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ کے اسرائیل پہنچنے پر ان کا استقبال کرنے والے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ وہ جمعے کے روز امریکی وزیرخارجہ جان کیری سے یروشلم میں ملاقات کے دوران ان مذاکرات کے حوالے سے اپنی تشویش ظاہر کریں گے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا، ’ہمیں امید ہے کہ ہم اپنے دوستوں کو رواں ہفتے اس بات پر آمادہ کر لیں گے کہ وہ ایران کے ساتھ ایک بہتر ڈیل تک پہنچیں۔‘ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ایران پر مزید دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا، ’مجھے تشویش ہے، بہت زیادہ تشویش ہے کہ اس ڈیل کے بعد ایران کے خلاف کئی برسوں میں لگائی گئی پابندیاں بہ یک جنبش قلم نرم ہو جائیں گے، جب کے ایران عملی طور پر کچھ بھی نہیں دے گا۔‘ نیتن یاہو نے ایران کے ساتھ کسی معاہدے کو دنیا کے لیے ایک ’ڈرونا خواب‘ قرار دیا۔
ادھر اسرائیل کا دورہ کرنے والے فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے ایران کے ساتھ کسی معاہدے کے لیے چار شرائط رکھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران اپنی تمام جوہری تنصیبات کو بین الاقوامی نگرانی میں دے، یورینیم کی 20 فیصد افزوردگی کا عمل ترک کرے، موجودہ ذخیرے کو کم کرے اور عراق کے بھاری پانی کے جوہری ری ایکٹر کی تعمیر کو روک دے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی معاہدے کی منظوری کے لیے فرانس ان شرائط پر عمل درآمد چاہتا ہے۔