1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
میڈیایورپ

'جولیان اسانج کا مقدمہ آزادی صحافت کو خطرے میں ڈال رہا ہے'

11 اگست 2022

جولیان اسانج کی اہلیہ اسٹیلا کا الزام ہے کہ جنگی جرائم کو بے نقاب کرنے پر امریکہ نے ایک غیر ملکی صحافی کو نشانہ بنایا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے شوہر کی زندگی کا انحصار اس پر ہے کہ ان کی حوالگی کا فیصلہ واپس لیا جائے۔

https://p.dw.com/p/4FOxw
Stella Assange
تصویر: Jonathan Brady/empics/picture alliance

انسانی حقوق کی وکیل اور وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کی اہلیہ اسٹیلا اسانج کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کی حوالگی کے لیے جاری کوشش نے دنیا بھر میں آزادی صحافت کے لیے ایک خطرناک نظیر قائم کی ہے۔

جولیان اسانج جنگی جرائم کی تفصیلی خفیہ دستاویزات شائع کرنے کے لیے جاسوسی سمیت 18 مجرمانہ الزامات میں امریکہ کو مطلوب ہیں۔ اگر انہیں امریکہ کے حوالے کیا جاتا ہے، تو انہیں 175 برس تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

اسانج کی اہلیہ نے ڈی ڈبلیو کے نامہ نگار برائٹ ماس سے بات چیت میں کہا، ''عالمی سطح پر یہ آزادی صحافت پر سب سے خطرناک حملہ ہے کیونکہ یہ امریکہ ہی ہے جو بیرون ملک کام کرنے والے ایک غیر ملکی صحافی کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔''

جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والی وکیل نے دیگر مغربی ممالک کی حکومتوں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ ان کے شوہر کی حوالگی کی حمایت سے پیچھے ہٹ جائیں۔ جولین اسانج آسٹریلوی شہری، جو برطانیہ میں زیر حراست ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ''یہ کیس یورپ میں آزادی صحافت کے دائرہ کار کی وضاحت کرے گا۔ کیا کسی بھی غیر ملکی طاقت کے لیے یہ درست ہے کہ وہ یورپی خطے میں پہنچ کر پریس کو محدود کر دے، کہ وہ کیا شائع کر سکتا ہے اور کیا نہیں؟''

ان کا مزید کہنا تھا، ''اس بارے میں سوچیں کہ اگر چین بھی بالکل ایسا ہی کرتا اور وہ محض اس بنیاد پر جرمنی میں ایک صحافی کے خلاف مقدمہ چلاتا، کیونکہ اس صحافی نے انسانیت کے خلاف چینی جرائم کو بے نقاب کیا تھا؟ تو یہ بنیاد مکمل طور پر پاگل پن ہے اور اسے برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔''

Großbritannien | Demonstration für die Freilassung von Julian Assange
تصویر: Ming Yeung/Getty Images

جولیان اسانج کے لیے آگے کیا ہے؟

اسانج کو برطانیہ کی بیلمارش جیل میں رکھا گیا ہے۔ وہ لندن کی ہائی کورٹ میں امریکہ اور برطانیہ کے حکومتی فیصلوں کے خلاف اپیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تاہم ان کی اہلیہ اسٹیلا کا کہنا ہے کہ ''بالآخر جب برطانیہ میں گھریلو سطح پر تمام طرح کے دروازے بند ہو جائیں، تو وہ یورپی عدالت برائے انسانی حقوق میں اپیل کر سکتے ہیں۔''

تاہم، برطانیہ کی موجودہ کنزرویٹو پارٹی کی حکومت ایسی اصلاحات کو منظور کرنے کی کوشش میں ہے جس سے یورپی یونین کی عدالت کو برطانوی عدالتوں کے فیصلے پر نظر ثانی کی اجازت نہیں ہو گی۔

اسٹیلا اسانج کا مزید کہنا تھا، ''ہمیں بہت تشویش ہے کہ وہ یورپی عدالت کو کمزور کرنے کے لیے انسانی حقوق کے ایکٹ میں اصلاحات کے عمل کو تیز تر کر رہے ہیں۔ اس نقطہ نظر سے یہ بہت تیزی سے کیا جا رہا ہے کہ شاید یورپی عدالت کے اس ممکنہ مثبت فیصلے میں مداخلت کی جا سکے ہو جو ان کی حوالگی کو روک سکتا ہے۔''

زندگی اور موت کا معاملہ؟

جولیان اسانج کی اہلیہ نے کہا کہ اسانج کی زندگی کا انحصار اب اسی بات پر ہے کہ وہ حوالگی کے خلاف اپنی جدوجہد میں کامیاب ہو جائیں۔

اسٹیلا اور اسانج کی ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب اسانج نے لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں سات برس تک پناہ لے رکھی تھی۔ اب انساج سے اسٹیلا کے دو بیٹے ہیں۔ دونوں نے اسی برس جیل میں قید کے دوران ہی شادی کر لی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ برطانیہ کی بیلمارش جیل میں نظربند ہونے کے بعد سے ہی اسانج طبی لحاظ سے افسردگی کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ اگر انہیں امریکہ کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور قید تنہائی میں رکھا جاتا ہے تو وہ خود کشی کرنے پر بھی آمادہ ہو سکتے ہیں۔

ان کی جسمانی صحت بھی بگڑ چکی ہے اور مبینہ طور پر گزشتہ اکتوبر میں انہیں ہلکا سا ایک دل کا دورہ بھی پڑا تھا۔

انہوں نے کہا، ''لہذا اگر آزادی صحافت کی وجوہات کو بھی مد نظر نہ رکھا جائے،  یہاں تک کہ اگر اس بات پر بھی غور نہیں کیا جاتا کہ امریکی حکومت نے انہیں قتل کرنے کی سازش کی تھی... تو پھر جولین کے ساتھ جس طرح کا وحشیانہ سلوک کیا جا رہا ہے، یا پھر جس کا انتظار ہے، اس کے مد نظر ہی خالص انسانی بنیادوں پر ان کی حوالگی کو روک دیا جانا چاہیے۔''

ص ز/ ج ا (جیک سیریلن)

سچ کے بغیر کچھ ممکن نہیں، ماریہ ریسا

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں