1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنید حفیظ کی سزا پر کئی حلقوں کو مایوسی

عبدالستار، اسلام آباد
23 دسمبر 2019

بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں انگریزی ادب کے استاد جنید حفیظ کی سزا پر ملک کے کئی حلقوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ نچلی عدالتوں کو تحفظ فراہم کریں تاکہ وہ انصاف کے تقاضے پورے کر سکیں۔

https://p.dw.com/p/3VHO9
Junaid Hafeez Pakistan Lektor
تصویر: Asad Jamal

بہاء الدین یونیورسٹی کے جُز وقتی استاد جنید حفیظ کو توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت کے علاوہ دو دیگر سزائیں بھی سنائی گئی ہیں جب کہ ان پر جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔

ادارہ برائے انسانی حقوق یا ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بھی اس فیصلے پر شدید مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ تنظیم کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس فیصلے سے یہ بات ظاہر ہے کہ پاکستانی معاشرہ ریڈیکلائزڈ ہو چکا ہے اور اس کا اثر نچلی عدالتوں پر بھی پڑ رہا ہے۔ عدالت نے اس بات کو بھی پیش نظر نہیں رکھا کہ جنید کے وکیل راشد رحمان کو قتل کیا گیا، جو نہ صرف جنید کے لیے مقدمہ لڑ رہے تھے بلکہ انہوں نے جبری مشقت کے شکار افراد سے لے کر تمام مظلوموں کے مقدمات بھی لڑے۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ جنید کے مقدمے میں انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں اور اعلٰی عدالتوں میں اپیل کے دوران اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی عدالتوں پر دباؤ نہ ڈال سکے۔‘‘

استغاثہ اور اس فیصلے کے حامی افراد کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ بالکل صحیح ہے لیکن جنید حفیظ سے واقفیت رکھنے والے اس کے انکاری ہیں۔

ملتان کی معروف ادبی و سماجی شخصیت اور بہاء الدین یونیورسٹی ملتان کے شعبہ اردو کے سابق سربراہ ڈاکٹر انوار احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نچلی سطح کی عدالتیں انتہا پسندوں کی طرف سے دباؤ میں ہیں: ''جنید کو اس مقدمے میں پھنسایا گیا ہے۔ اس کے وکیل کو پہلے سر عام دھمکیاں دیں گئیں اور پھر اسے قتل کر دیا گیا تو جج نے اپنی جان پچانے کے لیے یہ فیصلہ دیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ نچلی عدالتیں سخت دباؤ میں ہیں۔ ‘‘

Harris Khalique Schriftsteller aus Pakistan
ایچ آر سی پی کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق کے مطابق اس فیصلے سے یہ بات ظاہر ہے کہ پاکستانی معاشرہ ریڈیکلائزڈ ہو چکا ہے اور اس کا اثر نچلی عدالتوں پر بھی پڑ رہا ہے۔ تصویر: Privat

ان کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے اپنی جرات نچلی سطح کی عدالتوں میں بھی منتقل کی ہے: ''لیکن اس فیصلے سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عدالتیں سخت دباؤ میں ہیں۔ آج بھی کئی تنظیمیں مقامی اخبارات میں اپنے بیانات کے ذریعے اس اقدام کی ستائش کر رہی ہیں اور یہ تنظیمیں پہلے بھی بیانات دیتی رہی ہیں جو یقینا ججوں کی نظروں سے بھی گذرے ہوں گے۔ تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی عدالتوں کی اصلاح کریں اور ان کو دباؤ سے آزاد کرائیں تاکہ ملز م بھی بلا خوف وخطر اپنا موقف دے سکے اور عدالتیں غیر جانبداری سے اسے سن بھی سکیں۔‘‘

جنید حفیظ کے قریبی دوستوں کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ ایک سازش کے تحت جنید کے خلاف تیار کیا گیا جس میں سیاسی عناصر کا بھی عمل دخل ہے۔ گورنمنٹ ڈگری کالج جام پور میں جنید کے ساتھ گیارہویں اور بارہویں جماعت میں ایک ساتھ پڑھنے والے ملتان کے ایک رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جنید نے پورے ڈی جی خان میں ٹاپ کیا تھا۔ اس کا تعلیمی ریکارڈ بہت شاندار تھا۔ اسی لیے وہ اسکالر شپ پر امریکا گیا۔ جس وقت وہ یونیورسٹی میں پڑھا رہا تھا اس کے شعبہ یعنی انگریزی میں کچھ نوکریاں نکلیں۔ جنید کے تعلیمی ریکارڈ کی وجہ سے اس بات کا قوی امکان تھا کہ اسے یہ نوکری ملتی اور وہاں کچھ مذہبی تنظیمیں نہیں چاہتی تھیں کہ اس کو یہ نوکری ملے۔ تو اسی لیے یہ سارا ڈرامہ رچا یا گیا۔‘‘

جنید کے اس کلاس فیلو کا کہنا تھا کہ اسے فیصلے سے اسے سخت مایوسی ہوئی ہے: ''لیکن مجھے امید ہے کہ اعلٰی عدالتوں سے انصاف ملے گا کیونکہ وہاں مقدمے کی میرٹ کو باریک بینی سے دیکھا جاتا ہے اور وہاں خوف کا عنصر بھی نہیں ہوتا۔‘‘

پاکستان میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت مسیحی خوف زدہ

 

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔