1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنگ ميں مخالف کا دل جيتنے کا طريقہ

16 مئی 2012

کسی بھی جنگ ميں حقيقی فتح يا کاميابی جنگ زدہ ملک کے عوام کے دلوں اور ذہنوں کو جيتے بغير ممکن نہيں ہوتی۔ ليکن اس کے ليے اُس معاشرے کی بناوٹ اور ثقافتی مذہبی اقدار سے واقفيت لازمی سمجھی جاتی ہے۔

https://p.dw.com/p/14wMU
صوبے ننگرہار ميں گيہوں کی فصل

امريکی فوج نے عراق اور افغانستان ميں اس کے ليے خصوصی ٹيميں تيار کيں۔ ليکن ناقدين کا کہنا ہے کہ اس طرح ماہرين اور محققین جنگی مشين کا حصہ بن جاتے ہيں اور انہيں جنگ کے ليے استعمال کيا جاتا ہے۔

عراق کی طرح افغانستان ميں بھی امريکی فوج کو اس صورتحال کا سامنا ہے کہ باغی اُس پر مسلسل حملے کرتے رہتے ہيں۔ اُس کی مخالف کسی مرکزی نظام کے تحت کام کرنے والی کوئی فوج نہيں بلکہ بکھرے ہوئے باغی ہيں جو عوام سے بہت قريبی طور پر منسلک ہيں اور اکثر اُن کے اور عام لوگوں کے درميان کوئی فرق نظر نہيں آتا۔ اس طرح افغانستان ميں بھی جلد ہی يہ واضح ہو گيا کہ عوام کی مدد کے بغير ايسی جنگ جيتنا ممکن نہيں ہے۔

اس ليے کوئی پانچ سال قبل ايک خصوصی يونٹ قائم کيا گيا۔ اس کا کام اجنبی معاشروں کی اقدار اور معاشرت و ثقافت کو پہچاننا اور اُس سے آگہی حاصل کرنا ہے۔ اس يونٹ ميں سائنسدان،علم الانسان اور علم الاقوام کے ماہر اور معاشرتی سماجی علوم کے محققین شامل ہيں۔ اس خصوصی يونٹ کا کام يہ بھی معلوم کرنا ہے کہ کہاں لوگوں کو پيسے اور مدد کی ضرورت ہے۔ اعتماد کی فضا پيدا کرنے کے ليے يہ انتہائی ضروری ہے۔

ننگر ہار ميں ايک مشاعرہ
ننگر ہار ميں ايک مشاعرہتصویر: DW

ليکن اس يونٹ کا  دائرہء کار متنازعہ ہے۔ علم الانسان کی امريکی سوسائٹی اس يونٹ ميں کام کرنے والے ماہرين کو خبردار کر چکی ہے کہ انہيں جنگ ميں استعمال کيا جا رہا ہے۔ سوسائٹی کے صدر پروفيسر مارٹن پرائس نے کہا کہ فوج کی ہدايات کے تحت کام کرنے والا کوئی بھی فرد پيشہ ورانہ انداز ميں تحقيق نہيں کر سکتا: ’’ريسرچ کی اخلاقيات کا تقاضا ہے کہ محققين کو يہ علم ہو کہ اُن کی تحقيق کے نتائج کو کس مقصد کے ليے استعمال کيا جائے گا۔ يہ ضمانت بھی ہونی چاہيے کہ لوگوں پر اُن کی رضامندی سے ريسرچ کی جا رہی ہے۔ امريکی وزارت دفاع نے ويت نام ميں بھی ويت کانگ کے ساتھ ہمدردی رکھنے والوں کا سراغ لگانے کے ليے يہی طريقہ استعمال کيا تھا۔‘‘

افغانستان ميں اس يونٹ کی کارروائی کے دوران اُسے 30 مسلح فوجيوں، سات گاڑيوں اور فضا سے نگرانی کرنے والے جنگی ہيلی کاپٹر کی مدد حاصل ہوتی ہے۔ اس کے باوجود مقامی افراد سے گفتگو کے دوران طالبان اُن پر حملہ آور ہوتے ہيں۔

قندوز ميں نمائش کتب
قندوز ميں نمائش کتبتصویر: DW

يہ بالکل واضح ہے کہ يہ خصوصی يونٹ فوج کا مدد گار ہے اور افغان عوام کی معاشرت، طرز فکر اور ثقافت کے بارے ميں اس کی جمع کردہ معلومات کو فوج استعمال کرتی ہے ليکن يہ بھی ایک حقيقت ہے کہ جب تک کسی معاشرے کے مسائل کا علم نہ ہو اُس کی مدد بھی نہيں کی جا سکتی۔

T.Fuchs/N.Nils/sas/aa