1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

جنگ بندی مذاکرات سے دستبردار نہیں ہوئے، حماس

14 جولائی 2024

عسکریت پسند گروپ حماس کے حکام کے مطابق ہفتے کے روز خونریز اسرائیلی حملوں کے باوجود وہ جنگ بندی مذاکرات سے پیچھے نہیں ہٹے ہیں۔ دریں اثنا جنگ بندی معاہدے کے لیے اسرائیل میں بھی احتجاجی مظاہرے زور پکڑ رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4iGqK
 تل ابیب اور یروشلم میں ہزاروں اسرائیلیوں نے مظاہرے کیے
تل ابیب اور یروشلم میں ہزاروں اسرائیلیوں نے مظاہرے کیےتصویر: Maya Alleruzzo/AP/picture alliance

عسکریت پسند تنظیم حماس کے سیاسی دفتر کے رکن عزت الرشق نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ روز کے مہلک اسرائیلی حملوں کے باوجود وہ جنگ بندی مذاکرات جاری رکھیں گے۔

 غزہ کی وزارت صحت کے مطابق گزشتہ روز غزہ پٹی میں المواصی مہاجر کیمپ پر کیے جانے والے اسرائیلی حملے میں کم از کم 71 افراد ہلاک اور 289 زخمی ہو گئے تھے۔ اسرائیل کے مطابق اس حملے میں غزہ میں حماس کے فوجی سربراہ محمد ضیف کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

تاہم آج نیوز ایجنسی اے ایف پی نے حماس کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے اطلاع دی ہے کہ ''کمانڈر محمد ضیف ٹھیک ہیں اور براہ راست حماس کے عسکری ونگ کی کارروائیوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔‘‘ تاہم حماس نے تصدیق کی ہے کہ گزشتہ روز محمد ضیف کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔

 المواصی مہاجر کیمپ پر کیے جانے والے اسرائیلی حملے میں کم از کم 71 افراد ہلاک اور 289 زخمی ہو گئے تھے
المواصی مہاجر کیمپ پر کیے جانے والے اسرائیلی حملے میں کم از کم 71 افراد ہلاک اور 289 زخمی ہو گئے تھےتصویر: Gaza Health Ministry Abed Rahim Khatib/Anadolu/picture alliance

قبل ازیں ایسی اطلاعات منظر عام پر آئی تھیں کہ اس اسرائیلی حملے کے ردعمل میں حماس کے اہلکار جنگ بندی مذاکرات سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ تاہم اب عزت الرشق نے بتایا ہے کہ وہ مذاکرات سے دستبردار نہیں ہوئے لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ نیتن یاہو اور ان کی حکومت کی طرف سے حملوں میں اضافے کا مقصد تنازع کو ختم کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانا ہے۔

اس وقت عرب ممالک اور امریکہ کی کوششوں سے قطر میں حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی مذاکرات جاری ہیں۔ 

اسرائیل میں احتجاجی مظاہرے

دوسری جانب ہفتے کے روز تل ابیب اور یروشلم میں ہزاروں اسرائیلیوں نے مظاہرے کیے اور ایک ایسے معاہدے کا مطالبہ کیا، جس کے تحت حماس کے زیر حراست 120 کے قریب یرغمالیوں کو اسرائیل واپس لانے کا موقع ملے۔

ریلیوں کے شرکاء نے بھی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو پر الزام لگایا کہ وہ حماس کے ساتھ کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے بالواسطہ بات چیت کو سبوتاژ کر رہے ہیں۔ تل ابیب میں مظاہرین کی طرف سے اٹھائے گئے ایک بڑے بینر پر لکھا تھا، ''نیتن یاہو یرغمالیوں کو مار رہا ہے۔‘‘ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق ہزاروں افراد نے یروشلم میں نیتن یاہو کی رہائش گاہ کے باہر اور قیصریہ میں سمندر کنارے واقع نیتن یاہو کے ایک ولا کے باہر مظاہرہ کیا۔

اسی طرح حیفہ، بئر سبع اور ہرتزیلیا میں بھی احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔

 تل ابیب اور یروشلم میں ہزاروں اسرائیلیوں نے مظاہرے کیے
تل ابیب اور یروشلم میں ہزاروں اسرائیلیوں نے مظاہرے کیےتصویر: Andrei Shirokov/IMAGO/ITAR-TASS

گزشتہ چار روز میں یرغمالیوں کے کئی سو رشتہ داروں اور حامیوں نے تل ابیب سے یروشلم تک پیدل مارچ کیا ہے۔

غزہ میں اس جنگ کا آغاز پچھلے سال سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے ایک دہشت گردانہ حملے کے بعد ہوا تھا۔ اس حملے میں قریب بارہ سو اسرائیلی شہریوں کی ہلاکت کے بعد اسرائیل نے غزہ میں بڑی فضائی اور زمینی عسکری کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا۔ اسرائیلی فوج کی ان کارروائیوں کے نتیجے میں بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکتوں اور غزہ میں شہری ڈھانچے کی بڑے پیمانے پر تباہی کے پیش نظر اسرائیل کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا ہے۔

غزہ پٹی میں حماس کے زیر انتظام کام کرنے والی وزارت صحت کے مطابق جنگ شروع ہونے کے بعد سےغزہ میں اب تک کم از کم 38,584 افراد ہلاک اور 88,881 زخمی ہو چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی تھی جبکہ قریب 10 ہزار فلسطینی ابھی تک لاپتہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق ملبے تلے دبے فلسطینیوں کی تعداد بھی اندازوں سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

ا ا / ر ب (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)

مشرقی یروشلم میں مسمار ہوتے فلسطینیوں کے گھر