1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی سوڈان کا بحران مزید شدید ہوتا ہوا

عاطف بلوچ8 جولائی 2015

جنوبی سوڈان کی خانہ جنگی کے دوران فوجیوں کی طرف سے لڑکیوں کی آبروریزی کے بعد ان کا قتل، لڑکوں کو آختہ کرنے اور بچوں کو فوجیوں کی طور پر بھرتی کرنے میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1FvCJ
تصویر: GetttyImages/AFP/C. Lomodon

جنوبی سوڈان میں بڑھتی ہوئی ظالمانہ کارروائیوں کی روک تھام کے لیے عالمی برداری بے بس نظر آ رہی ہے۔ جمعرات کے دن یہ ملک اپنا چوتھا یوم آزادی منانے جا رہا ہے۔ اس موقع پر اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کی گئی ایک تازہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اس افریقی ملک میں متحارب گروپوں کے مابین مسلح تصادم کے نتیجے میں خونریزی بڑھتی جا رہی ہے۔ ماہرین نے اس تنازعے کو خطرناک قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ جنوبی سوڈان میں قیام امن کی خاطر مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جانا چاہیے کیونکہ متحارب پارٹیوں کے رہنماؤں اور کارکنوں پر پابندیاں عائد کرنے سے صورتحال مزید ابتر ہو جائے گی۔

جنوبی سوڈان میں دسمبر 2013ء میں اس وقت ایک سیاسی بحران پیدا ہوا تھا، جب صدر سِلوا کیر نے اپنے نائب صدر ریک مچار پر حکومت کا تختہ الٹنے کا الزام عائد کرتے ہوئے برطرف کر دیا تھا۔ تاہم اس سے صورتحال مزید خراب ہو گئی اور مچار کے حامیوں نے ہتھیار اٹھا لیے۔ چونکہ سِلوا کیر اور ریک مچار دو مختلف نسلی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے یہ سیاسی بحران جلد ہی ایک نسلی تنازعے میں تبدیل ہو گیا۔

سِلوا کیر اور ریک مچار دونوں ہی اس بحران کی ذمہ داری مشترکہ طور پر قبول کی تو اس وقت تک اٹھارہ ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا اور اس دوران خانہ جنگی شدت اختیار کر چکی تھی۔ اس تشدد کی وجہ سے ہزاروں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ اب اس خانہ جنگی کا خاتمہ دور تک نظر نہیں آ رہا۔

Symbolbild Frauen Opfer Konflikt Südsudan
جنوبی سوڈان میں اقتدار کی جنگ میں لوگ پِس رہے ہیںتصویر: GetttyImages/AFP/C. Lomodon

جنوبی سوڈان میں قیام امن کے لیے فائر بندی کے سات معاہدے کیے جا چکے ہیں، جو تمام ہی ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ سِلوا کیر اور ریک مچار کے مابین آخری ملاقات گزشتہ جون کے اواخر میں ہوئی تھی، جس میں دونوں رہنما اس خانہ جنگی کے خاتمے کی کوشش کے لیے کسی تحریری دستاویز پر متفق نہ ہو سکے تھے۔ ان مذاکرات میں ناکامی کے نتیجے میں جنوبی سوڈان میں قیام امن کی کوششوں کو ایک تازہ جھٹکا لگا تھا۔

گزشتہ ہفتے ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنوبی سوڈان کے چھ کمانڈروں پر سفری پابندیاں عائد کرتے ہوئے ان کے اثاثے منجمند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان میں چھ کمانڈروں میں سے تین کا تعلق ریک مچار کے گروہ سے جبکہ تین کا سِلوا کیر کے حامیوں میں سے ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر سمانتھا پاور کے بقول، ’’ ایسے افراد جو( جنوبی سوڈان میں) ظلم و ستم کرنے اور امن کوششوں کو سبوتاژ کریں گے، انہیں نتائج بھگتنا ہوں گے۔‘‘

اس افریقی ملک میں قیام امن کی کوششوں کے لیے سرگرداں عالمی مندوبین کے مطابق ان کے پاس متبادل راستے بہت کم ہیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی نے ایک سفارتکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ مسلسل مذاکراتی عمل سے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے ہیں، اس لیے پابندیاں ہی آخری راستہ بچتی ہیں۔ اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر اس سفارتکار کا البتہ مزید کہنا تھا، ’’ہم ابھی بھی پرامید ہیں مذاکراتی عمل کے ذریعے امن ڈیل کو حتمی شکل دے سکتے ہیں۔‘‘