جنوبی ایشیا کے موضوعات، جرمن اخباروں میں
6 فروری 2011پاکستان نے گزشتہ چار سالوں کے دوران اسلحہ سازی کے لیے استعمال میں لایا جانے والا قابل تقسیم ایٹمی مادہ جس مقدار میں پیدا کیا ہے، اتنا شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے ملک نے کیا ہوگا۔ ساتھ ہی اس جنوبی ایشیائی ملک نے اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد بھی دگنا کر دی ہے۔ یہ اندازے لگائے ہیں امریکی ماہرین نے اور اس بارے میں ایک جائزہ شائع ہوا امریکی روزنامے واشنگٹن پوسٹ میں۔ اس جائزے پر جرمن اخبار’فرانکفرٹر الگمائنے‘ میں چھپنے والا تبصرہ کچھ یوں تھا:’’واشنگٹن میں قائم انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ انٹرنیشنل سکیورٹی ISIS کے سربراہ اور اقوام متحدہ کے، اسلحے کے سابق معائنہ کار ڈیوڈ البرائٹ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے پاس ماضی میں 30 ایٹمی وارہیڈز پائے جاتے تھے، جن کی تعداد سن 2007 میں دگنا ہو کر 60 ہوئی اور اب اسلام آباد نے اس میں مزید اضافہ کر کے یہ تعداد 110 تک پہنچا دی ہے۔ پاکستان کے دو شہروں میں یورینیم کی افزودگی کا کام جاری ہے۔ اس کے علاوہ اس ملک نے پلوٹونیم کی پیداوار بھی بہت بڑھا دی ہے۔ پلوٹونیم کی مدد سے تیار کردہ وارہیڈز ہلکے ہوتے ہیں اور انہیں پاکستان کے شاہین دوم طرز کے ان نو ساختہ راکٹوں پر نصب کیا جا سکتا ہے، جو 2400 کلومیٹر کے فاصلے تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کی جوہری اسلحہ سازی واشنگٹن کے ساتھ ساتھ ماسکو کے لیے بھی گہری تشویش کا باعث ہے۔‘‘
امریکہ سال رواں کے دوران ایٹمی اسلحہ سازی میں استعمال کے لیے قابل تقسیم ایٹمی مادوں کی پیداوار پر پابندی سے متعلق معاہدے پرغیر معمولی زور دے رہا ہے۔ یہ معاہدہ یورینیم اور پلوٹونیم کی پیداوار پر پابندی کا باعث بنے گا۔
اس بارے میں زیورخ سے شائع ہونے والے سوئس اخبار ’نوئے زیوریشر سائٹُنگ‘ میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق: ’’2009 میں ہی اقوام متحدہ کی تخفیف اسلحہ کانفرنس کے 65 ممبر ممالک نے قابل تقسیم ایٹمی مادوں کی پیداوار میں کٹوتی سے متعلق معاہدے FMCT کے بارے میں ایک ورکنگ پروگرام پر اتفاق کر لیا تھا۔ بعد ازاں پاکستان نے اس کے خلاف اپنا ویٹو کا حق استعمال کیا اور اس کے ساتھ ہی بات چیت کا عمل رک گیا۔ اس سال اس کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر ضمیر اکرم نے کہہ دیا تھا کہ پاکستان اس قسم کے کسی بھی معاہدے پر اتفاق نہیں کرے گا کیونکہ اسے جنوبی ایشیا کی دوسری جوہری طاقت بھارت کا سامنا ہے۔‘‘
ونڈ ٹربائنز بنانے والی دنیا کی چوتھی بڑی اور جرمنی سے تعلق رکھنے والی کمپنی Enercon بھارت میں اپنی سرمایہ کاری کو ایک بڑی غلطی سمجھنے لگی ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ بھارت میں اس سرمایہ کاری سے اسے خسارہ ہوا ہے۔ اس بارے میں اخبار’فرانکفرٹر الگمائنے‘ لکھتا ہے:’’جرمن کمپنی Enercon کو متعدد سطحوں پر دھوکہ ہوا ہے۔
بھارت چاہتا تھا کہ Enercon India Ltd اسٹاک ایکسچینج میں لسٹ ہو جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ اقتصادی ترقی ہو سکے۔ جرمنوں نے تاہم بھارت کو بریک لگا دی کیونکہ وہ پائیدار اور مستحکم ترقی کی ضمانت چاہتے ہیں۔ سن 2005 میں آخر کار دونوں ملکوں کا یہ مشترکہ پروجیکٹ ختم ہو گیا اور یہ اتحاد ٹوٹ گیا۔ یوں دونوں کے مابین دوستی دشمنی میں بدل گئی۔ تب سے جرمن شہر Aurich اور بھارت کے شہر ممبئی کے مابین ایک طرح کی جنگ چل رہی ہے۔ بھارت کی سند حقِ ایجاد یا پیٹنٹ کی عدالت IPAB نے چنئی میں جرمن کمپنی Enercon کے بارہ Patents کو فاسد یا ناجائز قرار دے دیا ہے۔
تحریر: انا لیہمان / کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک