جنوبی اوسیتیا میں سولہ سو افراد ہلاک، روسی دعوے
9 اگست 2008جارجیا نے عراق میں متعین اپنے دو ہزار فوجی واپس بلانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ ماسکو اور طبلیسی کے مابین خونریز اقدامات کی وجہ بننے والے جنوبی اوسیتیا کے علاقے میں حقیقی صورت حال بھی زیادہ واضح نہیں ہے۔
1992 میں یکطرفہ طور پر جارجیا سے اپنی علیحدگی کا اعلان کرنے والے جنوبی اوسیتیا کے علاقے میں جسے ایک خود مختار ریاست کے طور پر آج تک بین الاقوامی برادری نے قبول نہیں کیا اور جسے ماسکوکی مکمل سیاسی اور فوجی سرپرستی بھی حاصل ہے، مقامی انتطامیہ کے صدر کوکوئتی نے یہ دعوے بھی کئے ہیں کہ جارجیا کی فوجوں نے جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب اس علاقے پر دوبارہ قبضے کے لئے جو مسلح کارروائی شروع کی تھی، اس کے نتیجے میں اب تک قریب سولہ سو افراد ہلاک اور سینکڑوں دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔
اس تنازعے میں ماسکو کے جنگی طیاروں نے جارجیا کے دارلحکومت طبلیسی اور چند دیگر علاقوں میں جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات مسلسل فضائی حملے بھی کئے جن کے نتیجے میں وسیع تر جانی اور مالی نقصان بھی ہوا اور دھماکوں کی آوازیں رات بھر کئی کلومیٹر دور تک بھی سنائی دیتی رہیں۔
لیکن روسی ذرائع ابلاغ میں اب بھی مسلسل ایسی تصویریں دیکھنے میں آرہی ہیں کہ جارجیا کے فوجی دستوں نے جنوبی اوسیتیا اور اس کے دارلحکومت سخِنوالی پر جو حملے کئےوہ کتنی بڑی تبایی کی وجہ بنے۔
سخِنوالی پر اس وقت در حقیقت کس کا قبضہ ہے یہ امر ابھی تک غیر واضح ہے کیونکہ روس اور جارجیا دونوں ہی یہ دعوے کررہے ہیں کہ جنوبی اوسیتیا کا صدر مقام ان کے کنٹرول میں ہے۔
ماسکو نے چونکہ جنوبی اوسیتیا میں بہت سے شہریوں کو روسی شہری حقوق دے رکھے ہیں اس لئے روسی صدر دیمیتری میدویدیف نے اس تنازعے میں ماسکو کے ملوث ہونے کی وضاحٹ کرتے ہوئے کہا کہ روسی صدر کے طور پر یہ ان کی ذمے داری ہے کہ روسی شہری جہاں کہیں بھی ہوں ان کے جان و مال اور عزت کے تحفظ کو یقینی بنایاجائے۔
اسی طرح روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے اس جنگ میں جارجیا پر کھلی جارحیت کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ جنوبی اوسیتیا کی حالت انسانی سطح پر ایک بہت المناک صورت حال ہے جس کی ذمے داری جارجیا پر عائد ہوتی ہے۔
اس تناظر میں جارجیا کے صدر میخائیل ساکاشویلی نے سرکاری ٹیلی ویژن پر اپنے ایک خطاب میں کہا کہ سخِنوالی پر جارجیا کے دستوں کو مکمل کنٹرول حاصل ہو چکا ہے جس کے بعد وہاں مجرمانہ اقدامات کرنے والے تمام گروپوں کا صفایا کردیا جائے گا۔ تاہم اس شہر پر قبضے کی جنگ میں اسے بہت نقصان بھی پہنچا ہے۔ چونکہ یہ شہر اب جارجیا کے قبضے میں ہے اس لئے وہاں روسی فضائیہ کی طرف سے حملے بھی کئے جا رہے ہیں جو صرف مزید تباہی کا سبب بنیں گے۔
جنوبی اوسیتیا کے تنازعے کے بارے نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک ایسے ہنگامی اجلاس میں فوری مشورے بھی کئے گئے جس کی درخواست جارجیا نے دی تھی اور جس میں کہا گیا تھا جنوبی اوسیتیا میں روسی فوجی دستوں کا داخل ہونا، جوکوئی تسلیم شدہ امن دستے نہیں ہیں، جارجیا کی ریاستی خودمختاری کی نفی ہے اور اس کا سد باب کیا جانا چاہیئے۔
ان حالات میں بہت سے سیاسی اور دفاعی ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ قفقاذ کے علاقے کو ایک ایسی آگ کے شعلوں کا سامنا ہے جو اس خطے کو وسیع تر بنیادوں پر اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
دریں اثناء جارجیا میں روسی جنگی طیاروں کے شدید حملوں کے بعد سرکاری طور پر حالت جنگ نافذ کردی گئی ہے۔ طبلیسی میں ملکی پارلیمان نے صدر میخائیل ساکاشویلی کے اس حکم کی توثیق کردی ہے کہ جارجیا میں فی الحال پندرہ روز تک مارشل لاء نافذ رہے گا۔
ادھر جنوبی اوسیتیا کےساتھ ہی نوے کے عشرے میں جارجیا سے اپنی علیحدگی کا اعلان کرنے والے ایک اور علاقے ابخازیہ میں بھی جارجیا کے فوجی ٹھکانوں پر جنگی طیاروں سے حملے کئے گئے۔ طبلیسی میں جارجیا کی قومی سلامتی کونسل کے مطابق ابخازیہ میں کئے گئے حملوں میں روسی جنگی طیارے شامل نہیں تھے۔
تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق جارجیا کے صدر میخائیل ساکاشویلی نے اب یہ بھی کہہ دہا ہے کہ وہ جنوبی اوسیتیا کے تنازعے کے باعث شروع ہونے والی جنگ میں فائربندی پر تیار ہیں تاہم اس کے لئے پہلے روسی حملے بند ہونا چاہیئں۔
اس کے برعکس روسی وزیر اعظم ولادیمیر پوٹین نے جارجیا کے خلاف ماسکو کی فوجی اور فضائی کارروائیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ جارجیا خونریز مہم جوئی کررہا ہےاور جنوبی اوسیتیا کے واپس جارجیا کا حصہ بننے کا امکان بہت ہی کم ہے۔