1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنسی زیادتی سے متعلق یورپی قوانین پر ایمنسٹی کی تنقید

24 نومبر 2018

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ یورپی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ جنسی زیادتی سے متعلق اپنے ’متروک‘ قوانین کو بہتر بنائیں۔

https://p.dw.com/p/38qeQ
Spanien |  Eine Demonstrantin mit einem feministischen Symbol im Gesicht
تصویر: imago/ZUMA Press/J. Merida

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک کی اکثریت میں ایسے قوانین موجود ہیں جن میں رضامندی کے بغیر جنسی عمل کو ’ریپ‘ یا جنسی زیادتی کے طور پر نہیں دیکھا جاتا اور اسی باعث اس جرم کا ارتکاب کرنے والے سزا سے بچ جاتے ہیں۔ جرمنی اُن آٹھ یورپی ممالک میں سے ایک ہے جہاں ریپ کی تعریف رضامندی کے بغیر جنسی عمل کے طور پر کی گئی ہے۔

یورپ کے 31 ممالک کے قوانین کا تجزیہ کیا گیا اور ان میں سے 23 ممالک میں ریپ یا جنسی زیادتی کی تعریف ایسے جنسی عمل کے طور پر کی گئی ہے جس میں تشدد، دھمکی یا کسی اور طرح کی زور زبردستی شامل ہو۔

’خاموشی توڑ دو‘

جن آٹھ ممالک میں رضامندی کے بغیر جنسی عمل کو ریپ قرار دیا گیا ہے ان میں جرمنی کے علاوہ آئرلینڈ، برطانیہ، بیلجیم، قبرص، آئس لینڈ، لکسمبرگ اور سویڈن شامل ہیں۔

ذمہ داروں کی مدد

ایمنسٹی انٹرنیشنل میں خواتین کے حقوق کی ماہر آنا بَلُس Anna Blus کے مطابق، ’’رضامندی کے بغیر سیکس ریپ ہے، بات ختم۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’جب تک حکومتیں اپنے قوانین کو اس سادہ حقیقت کے مطابق نہیں بنائیں گی، جنسی زیادتی کے ذمہ دار اپنے جرم کی سزا سے بچتے رہیں گے۔‘‘

جرمنی نے جنسی جرائم کے حوالے سے اپنے قوانین کو 2016ء میں تبدیل کرتے ہوئے ریپ کو ایک ایسے جنسی عمل کی بجائے جس میں کسی قسم کا تشدد شامل ہو، ایک ایسا جنسی عمل قرار دیا تھا جس میں رضامندی شامل نہ ہو۔

جرمنی میں ہزاروں بچے پادریوں کی ہوس کا شکار 

کچھ ممالک میں رضامندی کے بغیر جنسی عمل کو تشدد پر مبنی جنسی عمل کی نسبت چھوٹا جرم سمجھا جاتا ہے جبکہ بعض دیگر میں اسے ’عزت‘ یا ’اخلاقیات‘ کے تناظر میں بیان کیا گیا ہے۔ مالٹا کے قانون میں جنسی جرائم کو ’خاندان کے اچھے نظم و نسق کو متاثر کرنے والے جرائم‘ کے تحت بیان کیا گیا ہے۔

یورپین ایجنسی برائے بنیادی حقوق کے مطابق 15 برس سے زائد عمر کی قریب نو ملین خواتین سے جنسی زیادتی کی گئی۔ یہ تعداد ہر 20 میں سے ایک خاتون بنتی ہے۔

تبدیلی کا مطالبہ

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے یہ تجزیہ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب 25 نومبر کو خواتین کے خلاف جرائم کے خاتمے کا بین الاقوامی دن منایا جا رہا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ ڈنمارک کی خواتین اتوار 25 نومبر کو اس بات کے حق میں ایک مظاہرہ کریں گی کہ ڈنمارک میں بھی ریپ کو رضامندی کے بغیر جنسی عمل قرار دیا جائے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل میں خواتین کے حقوق کی ماہر آنا بَلُس کے مطابق، ’’ریپ انسانی حقوق کی ایک سنگین خلاف ورزی ہے اور اسے ہمیشہ ایک بڑے جرم کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔‘‘

ا ب ا / ع ا (الیکسانڈر میشائل پیئرسن)