1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنرل باجوہ کا افغانستان کا اچانک دورہ

10 مئی 2021

پاکستانی فوج کے سربراہ نے پیر 10 مئی کو افغانستان کا دورہ کیا اور کابل میں افغان صدراشرف غنی اور دیگر افغان لیڈروں سے ملاقات کی ہے۔ اس دورے کے بارے میں کابل میں مقامی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا۔

https://p.dw.com/p/3tCvI
Pakistans Armeechef General  Bajwa zu Besuch in Afghanistan
تصویر: High Council for National Reconciliation Press Office

 

 

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ پیر 10 مئی کا یہ دورہ ایک نہایت نازک صورتحال کے دوران عمل میں آیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب افغانستان میں سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے شروع ہونے پر شدید غیر یقینی حالات نظر آ رہا ہیں۔ ایسے میں جنول باجوہ کا یہ دورہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔اس دورے کے بارے میں کابل میں مقامی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا۔ دریں اثناء پاکستانی فوج کے میڈیا ونگ یا تعلقات عامہ کے دفتر نے جنرل باجوہ کے دورہٴ افغانستان کے بارے میں گزارش پر بھی کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔

افغانستان: امریکا کا مزید جنگی طیارے بھیجنے کا فیصلہ

افواج پاکستان کے سربراہ کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں  عمل میں آیا جب  افغانستان سے امریکی اور نیٹو کے دیگر ممبر ممالک نے اپنی افواج کو واپس بلا لینے کے کام کا آغاز کر دیا ہے۔ اُدھر ملک میں آئے دن تشدد اور خونریزی ایک بار پھر زور پکڑ گئی ہے۔  جنرل باجوہ کے اس دورے کے بارے میں فی الحال واضح طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ پڑوسی ملک کے اس دورے کے دوران کن موضوعات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ افغانستان اور خطے میں پاکستان کو ایک کلیدی فریق کی حیثیت حاصل ہے۔ 

زخمی افغانستان کی ادھوری کہانی

Pakistans Armeechef General  Bajwa zu Besuch in Afghanistan
جنرل باجوہ نے افغان صدر سے ملاقات کی۔تصویر: High Council for National Reconciliation Press Office

افغان امن عمل میں بھی اسلام آباد کا غیر معمولی کردار سمجھا جاتا ہے۔ ماضی میں پاکستان پر افغانستان کے باغی طالبان عناصر کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے تاہم حالیہ چند سالوں کے دوران واشنگٹن انتظامیہ اور مغربی طاقتوں نے اس امر کا اعتراف کرنا شروع کیا ہے کہ پاکستان  نے عسکریت پسند گروپ کو امن مذاکرات میں حصہ لینے کے لیے ان پر دباؤ  ڈالنے کی کوشش کی۔

 پیر کو ہی پاکستانی فوج کے تعلقات عامہ کے ادرے آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا کہ جنرل باجوہ نے برطانیہ کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل نیکو لس پیٹرک سے ملاقات کی ہے اور دونوں کے مابین افغانستان کے امن مذاکرات سے متعلق بات چیت ہوئی ہے۔ آئی ایس پی آر نے تاہم اس ملاقات کے مقام کے بارے میں نہیں بتایا۔

افغانستان: جنگ میں شدت، لوگ گھر چھوڑنے پر مجبور

اُدھر حالیہ ہفتوں کے دوران طالبان اور سفارتی ذرائع نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ پاکستان طالبان باغیوں سے مذاکرات کی کوشش کر رہا ہے اور انہیں جنگ بندی پر پابند رہنے، امریکا اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی توسیع کرنے، جس کی شرط یہ رکھی گئی تھی کہ امریکا اور دیگر غیر ملکی افواج ماہِ مئی تک افغانستان سے نکل جائیں گی، پر قائم رہنے اور امن مذاکرات کے سلسلے میں ترکی میں ایک کانفرنس کے طے شدہ انعقاد میں حصہ لینے پر اصرار کر رہا ہے۔

افغانستان کا آخری یہودی ملک چھوڑنے کے لیے تیار

Afghanistan Kabul Anschlag
8 مئی کو کابل میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد کا منظر۔تصویر: Mohammad Ismail/REUTERS

ان تمام اقدامات کے باوجود حالیہ ہفتوں میں افغانستان میں تشدد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ طالبان نے ملک بھر میں حملے شروع کر دیے ہیں۔ دہشت گردی کے تازہ ترین واقعے میں گزشتہ ہفتے کے روز کابل کے ایک اسکول پر ہولناک حملے کی تاحال کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔ افغان طالبان نےکابل میں لڑکیوں کے ایک اسکول پر حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔ اس بم حملے میں  کم از کم پچاس جانیں ضائع ہو ئیں جن میں اکثریت بچیوں کی تھی۔ افغانستان میں طالبان نے عیدالفطر کے موقع پر تین روزہ جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ اعلان کے چند گھنٹے بعد ہی جنوبی صوبے زابل میں ایک بس پر بم حملہ کیا گیا، جس میں کم از کم گیارہ لوگ مارےگئے۔ طالبان کے  کہنا ہے کہ  جنگ بندی عید کا چاند نظر آنے کے بعد سے شروع ہوگی۔

ک م/ ع ح )رائٹرز(