جنرل باجوہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی شہ سرخیوں کی زینت
4 دسمبر 2022پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہگزشتہ ہفتے اپنے عہدے سے ریٹائر ہونے کے باجود مسلسل شہ سرخیوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ ان کا بطور فوجی سربراہ ملکی سیاست میں مبینہ کردار ہے۔ جنرل باجوہ کی انتیس نومبر کو ریٹائرمنٹ کے فوری بعد سے سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اہم رہنماؤں نے کھل کر ان کی مبینہ سیاسی دخل اندازی پر بات چیت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
اس ضمن میں ابتدا تو تحریک انصاف کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الہٰی کے اس انٹرویو سے ہوئی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جنرل باجوہ نے ان کی جماعت کو عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں پی ٹی آئی کا ساتھ دینے کا کہا تھا۔
اس کے بعد سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور تحرک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے اپنے ایک انٹرویو میں برملا یہ کہا کہ جنرل باجوہ کو آرمی چیف کے طور پر مدت ملازمت میں توسیع دینا ان کی جماعت کی ایک غلطی تھی۔
'باجوہ پر بھروسہ کمزوری تھی‘
تاہم اینکر پرسن عمران ریاض کے ساتھ اپنے ایک تازہ انٹرویو میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ جنرل باجوہ کو مدت ملازمت میں تو سیع دینا ان کی بہت بڑی سیاسی غلطی تھی، ''ساڑھے تین سال گزرنے کے بعد پہلی بار احساس ہوا کہ ان پر اعتماد کرنا میری کتنی بڑی کمزوری ہے۔ مجھے یہ پتا ہی نہیں تھا کہ کس طرح میرے ساتھ دھوکے کیے گئےاور جھوٹ بولے گئے۔‘‘
عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فوج میں کسی کو بھی توسیع نہیں دی جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل باجوہ نے مدت ملازمت میں توسیع ملنے کے بعد سے ہی دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے شروع کر دیے تھے۔ تحریک انصاف کے سربراہ نے جنرل باجوہ پر 'ڈبل گیم‘ کھیلنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا، ''وہ (باجوہ)کسی کو کوئی پیغام بھجوا رہے تھے اور کسی کو کوئی۔ آخر پر کیا ہوا؟ جو انہوں نے میرے ساتھ کیا، وہ ایکسپوز تو ہو گئے۔ ‘‘
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں اپنے عہدے سے الگ ہونے کے بعد آرمی چیف کا تذکرہ یوں زور و شور سے جاری نہیں رہتا۔ تاہم جنرل باجوہ کے معاملے میں ایسا کیوں نہیں ہو رہا؟
اس بارے میں پاکستان میں جمہوری اداروں کی مضبوطی اور شفافیت کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجیسلیٹو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ بطور آرمی چیف جنرل باجوہ نے ایک بڑا متحرک دور گزارا ہے اور اس دوران، جو سیاسی تبدیلیاں آئیں، ان کے اثرات ابھی تک جاری ہیں، ''اس لیے یہ توقع نہیں کی جانی چاہیے کہ ان کا تذکرہ جلد ختم ہو جائے گا۔ ہاں! یہ بات ہے کہ وہ ان الزامات کا جواب دینے کے لیے خود موجود نہیں ہیں اور ایک طرح سے وہ اپنے پیشروؤں کی طرح خاموشی سے چلے گئے ہیں۔‘‘
احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ عمران خان اس حوالے سے اپنی غلطی بھی تسلیم کر رہے ہیں اور انہیں چاہیے کہ وہ مزید نظر دوڑائیں اور دیکھیں کے ان سے اور کیا کیا غلطیاں سر زد ہوئیں؟ انہوں نے کہا،''اور پھر دیگر سیاستدانوں کو بھی اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ کر انہیں دہرانا نہیں چاہیے۔‘‘
فوج کی سیاست میں مداخلت
عمران خان نے ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی اس مشترکہ پریس کانفرنس میں کیے گئے اس وعدے کو بھی جھوٹا قرار دیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ فوج نے گزشتہ ڈیڑھ سال سےملکی سیاستمیں مداخلت نہیں کی۔ تحریک انصاف کے سربراہ کا کہنا تھاکہ ساڑھے تین سال حکومت میں رہنے کے بعد انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ سیاسی مداخلت کس طرح کی جاتی ہے۔
عمران خان کا کہنا تھاکہ گزشتہ سات ماہ سے ان کی جماعت کو توڑنے کی، جو کوششیں کی گئیں، وہ کامیا ب نہیں ہو سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے نئی فوجی قیادت کو یہ پیغام بھجوایا ہے کہ تحریک انصاف پہلے سے زیادہ مظبوط ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل عاصم منیر کی قیادت میں نئے سیٹ اپ کو موقع دیا جانا چاہیے کہ وہ اپنا کام کر سکیں۔
احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں یہ توقع کی جانا چاہیے کہ سیاستدان اور فوجی قیادت دونوں ہی اپنے دائرے میں رہ کر کام کریں گے۔ انہوں نے کہا، ''فوج کو دیکھنا ہو گا کہ اس کے سیاسی کردار کی وجہ سے اس کی ساکھ کو کتنا نقصان پہنچا اور اس کو ختم کرنے سے ان کا وقار بحال ہو گا۔ اسی طرح سیاستدانوں کو بھی سیاسی میدان سے باہر کی طاقتون کی طرف دیکھنے یا ان کی مدد سے اقتدار یا دیگر سیاسی فوائد حاصل کرنے کی سوچ اور عمل کو ترک کرنا ہو گا۔‘‘
پلڈاٹ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جمہوریت ایک ارتقائی عمل ہے اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ایک جیسی غلطیاں دہراتے رہیں اور توقع کریں کے نتائج مختلف ہوں گے۔
ش ر ⁄ اا