جنرل اسمبلی کا اجلاس: شام اور ایران مرکزی موضوعات
24 ستمبر 2013آج دنیا کے چوٹی کے سیاسی رہنما نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے جمع ہیں جہاں کچھ دیر قبل یہ اجلاس شروع ہو چکا ہے۔ اس اجلاس میں عرب ریاست شام کا بحران اور ایران کے ساتھ اُس کے متنازعہ ایٹمی پروگرام کے بارے میں مغربی دنیا کے مذاکرات جیسے موضوعات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے آغاز پر اب سے کچھ دیر قبل امریکی صدر باراک اوباما نے اپنی تقریر شروع کی ہے۔ اس بار جنرل اسمبلی کے اجلاس کی ایک اور خاص بات نئے ایرانی صدر حسن روحانی کی متوقع تقریر ہے جس پر تمام دنیا کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں۔ روحانی نے صدارتی عہدہ سمبھالتے ہے مغرب کے ساتھ کشیدہ تعلقات میں بہتری اور تہران کے متنازعہ ایٹمی پروگرام کے بارے میں عالمی برادری سے مذاکرات دوبارہ سے شروع کرنے کا عندیہ تھا۔
آج منگل کو جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل ایران کی وزارت خارجہ کی ایک خاتون ترجمان مرضیہ افخم سے اوباما اور روحانی کی براہ راست ملاقات کے امکانات کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے صحافیوں کو بتایا، ’’دونوں صدور کی ملاقات ہمارے ایجنڈا میں شامل نہیں ہے۔ اس ملاقات کے لیے مناسب فضا اب تک نہیں بنی ہے۔ ایران اوباما اور روحانی کی ملاقات برائے ملاقات کے سبب اس قسم کا کوئی اشارہ نہیں دینا چاہتا۔‘‘
قبل ازیں گزشتہ روز یعنی پیر 23 ستمبر کو وائٹ ہاؤس کی طرف سے بھی کہا گیا تھا کہ ایران اور امریکا کے صدور کی ملاقات طے نہیں ہے تاہم اس کے امکانات کو وائٹ ہاؤس نے رد بھی نہیں کیا۔ امریکا کی قومی سلامتی کے نائب مشیر بن روہڈز نے اس بارے میں کہا تھا، ’’ہم مختلف سطحوں پر ایران کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام کے بارے میں عالمی برادری کے خدشات دور کرنے کے اپنے وعدوں کو پورا کرے۔‘‘
ایران اور امریکا کے صدور کے مابین ممکنہ براہ راست ملاقات تین عشروں سے دونوں ممالک کے منقطع سفارتی تعلقات کی بحالی اور کشیدہ تعلقات میں بہتری کی نشان دہی ہو سکتی ہے۔
دریں اثناء امریکا اور یورپی یونین کے حکام نے کہا ہے کہ ایران کے وزیر خارجہ جمعرات کو اقوام متحدہ میں چھ اہم عالمی طاقتوں سے ایران کے جوہری پروگرام پر بات چیت کریں گے۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظريف کے ساتھ ہونے والی اس ملاقات میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی شامل ہوں گے۔
دریں اثناء بحران زدہ عرب ملک شام کے حلیف روس نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے پہلے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ سلامتی کونسل رواں ہفتے شام کے کیمیاوی ہتھیار ترک کرنے کے حوالے سے کسی ڈیل پر آمادہ ہو جائے گی۔ تاہم روس کے نائب وزیر خارجہ سیرگئی ریاب کوف نے روس کا موقف دھراتے ہوئے کہا کہ اگر شامی صدر بشارالاسد روس اور امریکا کی طرف سے پیش کردہ مشترکہ ڈیل کے تقاضے پورا کرنے میں ناکام بھی رہتے ہیں تو ماسکو کسی ایسی قرارداد کا ساتھ نہیں دے گا جو دمشق حکومت پر مزید پابندیوں اور اُس کے خلاف طاقت کے استعمال کی بات کرے۔
اُدھر جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل ایک بیان میں سلامتی کونسل کے کردار کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے زوما کا کہنا تھا، ’’سلامتی کونسل کے ارکان اور ویٹو کا حق رکھنے والے ممالک امن سے زیادہ جنگ کی بات کرتے ہیں۔ یہ اقلیت دراصل تمام عالمی مسائل کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔‘‘ زوما نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو فرسودہ، غیر جمہوری اور غیر موثر کردار کا حامل قرار دیا ہے۔
دریں اثناء جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیو یارک پہنچنے والے جرمن وفد کے مطابق جرمنی کے جلد ہی عہدے سے سبکدوش ہونے والے وفاقی وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے آج، منگل کی شام نیو یارک کے ہوٹل میں ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقات کریں گے۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیو یارک پہنچنے والے عالمی لیڈروں میں پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی شامل ہیں۔ نواز شریف غالباً 27 ستمبر بروز جمعہ جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔