1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی کو پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کا سامنا

عابد حسین7 دسمبر 2014

جرمنی کے وفاقی ادارے برائے مہاجرت اور پناہ گزین کے سربراہ نے یہ امکان کا ظاہر کیا ہے کہ سن 2015 کے دوران جرمنی کو پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد کا سامنا ہو سکتا ہے، جو رواں برس سے کہیں زیاد ہو سکتی ہے ۔

https://p.dw.com/p/1E0Ls
تصویر: Reuters/Michaela Rehle

شام، عراق اور افغانستان میں عدم استحکام اور پرتشدد حالات کی وجہ سے بے گھر افراد دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ ایسے ملکوں میں اردن، ترکی، ایران اور پاکستان نمایاں ہیں۔ دوسرے ملکوں میں مہاجرت کے بعد یہ مہاجرین کئی دوسرے ملکوں میں جا کر آباد ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان ملکوں میں آسٹریلیا، اور یورپی ممالک خاص طور پر اہم ہیں۔ جرمنی کے وفاقی ادارے برائے مہاجرت و پناہ گزین کے سربراہ مانفریڈ شمٹ (Manfred Schmidt) کا کہنا ہے کہ اگلے برس یعنی سن 2015 میں جرمنی کو پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد کا سامنا ہو سکتا ہے۔

مانفریڈ شمٹ کا انٹرویو جرمنی کے ایک علا قائی اخبار Rheinische Post میں شائع ہوا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اِس بات کا قوی امکان ہے کہ سن 2015 میں دو لاکھ تیس ہزار پناہ گزینوں کی درخواستیں جرمنی کو وصول ہو سکتی ہیں۔ جرمن ادارے نے پناہ گزینوں کی جس تعداد کا اندازہ لگایا ہے، وہ کئی ملکوں میں جبر اور حکومتی سختیوں کی جاری پالیسیوں کے تناظر میں ہے۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں پناہ گزینوں کے لیے یوں تو کسی بھی یورپی ملک میں پناہ حاصل ہونے کو پسند کیا جاتا ہے لیکن اس میں جرمنی میں مہاجرت کی درخواست کا قبول ہو جانا ایک طرح سے خواب کی تکمیل سمجھی جاتی ہے۔

Manfred Schmidt Bundesamt für Migration und Flüchtlinge
جرمنی کے وفاقی ادارے برائے مہاجرت و پناہ گزین کے سربراہ مانفریڈ شمٹتصویر: Geiger

یہ امر اہم ہے کہ جرمنی پہلے ہی پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد کا سامنا کر رہا ہے اور اِس میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔ اس باعث جرمن حکومتی ادارے کو خاصی مشکلات کا سامنا کرنے کے علاوہ انتظامات کے لیے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔ سن 2014 میں جرمن حکام نے دو لاکھ پناہ گزینوں کی درخواستوں کا اندازہ لگایا تھا اور یہ تعداد سن 2013 کے مقابلے میں ساٹھ فیصد زیادہ تھی لیکن درخواستیں جو موصول ہوئی وہ سن 2013 کے مقابلے میں دو تہائی زیادہ تھیں۔ اِن پناہ گزینوں کی آباد کاری کے لیے حکام نے سابقہ فوجی بیرکوں کے علاوہ کئی اسکولوں کی عمارتوں کو بھی کرایے پر لینے کی پلاننگ شروع کر رکھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ موبائل گھروں اور خیموں کا بھی بندو بست کیا جا رہا ہے۔

اُدھر آسٹریلیا کی جانب سے پناہ کے متلاشی افراد کے خلاف سخت اقدامات کو اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے نے آسٹریلوی اقدامات کو ایک خطرناک مثال سے تعبیر کیا ہے۔ مہاجرین کے ادارے کے ترجمان ولیم اسپنڈلر نے جنیوا سے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ آسٹریلوی اقدامات مہاجرین کے بین الاقوامی انتظامات کے لیے منفی اثرات کے حامل ہیں کیونکہ اِس میں اِس صورت حال کا حصہ دار بننے سے گریز کیا جا رہا ہے۔