1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمنی میں ہر روز ہی اسلامو فوبیا کا سامنا کرنا پڑتا ہے

15 مارچ 2023

اقوام متحدہ کی جانب سے پندرہ مارچ اسلامو فوبیا سے نمٹنے کا عالمی دن ہے۔ جرمنی میں رہنے والے تقریباً 55 لاکھ مسلمانوں میں سے بیشتر کا کہنا ہے کہ انہیں تقریبا ًہر روز ہی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4OhOd
Deutschland | Baustelle Ahmadiyya Moschee in Erfurt
تصویر: DW/B. Knight

جرمنی کے مشرقی شہر ایرفرٹ کا نیلا آسمان صاف شفاف تھا۔ ہوا میں خنکی تھی۔ مارچ کے اوائل کا وہ دن سلیمان ملک کے لیے جشن کا دن تھا۔ ایرفرٹ کے مارباخ میں نئی تعمیر ہونے والی احمدیہ مسجد میں بالآخر ایک مینار بھی تعمیر ہو چکا ہے۔ یہ مینار نو میٹر تک بلند ہے۔ یہ مسجد سابق سوشلسٹ جی ڈی آر کی سرزمین پر مسلمانوں کی پہلی نئی مذہبی عمارت ہے۔

جرمن مسلمانوں کو دو گز زمین کا مسئلہ

مینار کی تعمیر کے لیے پانچ بڑے دائرے والے عناصر کا استعمال ہوا، جنہیں نصب کرنے کے لیے کرین کی ضرورت تھی۔ ان میں سے ہر دائرے کا وزن کئی ٹن ہے اور انہیں انتہائی درستگی کے ساتھ ایک ساتھ نصب کیا گیا ہے۔

انتہائی دائیں بازو کی جرمن سیاسی جماعت اے ایف ڈی کے دس سال

سلمیان ملک نے بتایا کہ اتنی کیچڑ والی زمین پر اتنی وزنی چیز کو اٹھانے کے لیے ایک کرین کو کرائے پر لینے میں مہینوں لگ گئے۔ انہوں نے کہا کہ تعمیراتی کمپنیاں کام کرنے کے لیے پہلے تیار تھیں،تاہم پھر نسل پرستی، دائیں بازو کی بنیاد پرستی اور اسلامو فوبیا کی وجہ سے خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹ گئیں۔

لاشیں بدل گئیں: جرمنی میں ترک مسلمان کی میت غلطی سے نذر آتش

 ملک کا کہنا تھا کہ بالآخر جو کمپنی کام کے لیے راضی ہوئی، اس نے کام شروع کرنے سے پہلے نصف رات کو ان سے رابطہ کیا اور نقد ادائیگی کے لیے کہا۔ کمپنی نے اس بات پر بھی اصرار کیا کہ عمارت میں کام کے دوران فلم یا تصویر بنانے کی اجازت نہیں ہے۔

کولون میں جرمنی کی سب سے بڑی مسجد سے اسپیکر پر اذان آج سے

Deutschland Pressegespräch zum Thema Muslime und AfD
ملک کا تعلق احمدی فرقے سے ہے، اور وہ احمدیہ جماعت کے رکن بھی ہیں۔ پاکستان میں اس مکتب فکر پر پابندی عائد ہے اور اسے ایک مظلوم اسلامی کمیونٹی مانا جاتا ہےتصویر: DW/K. A. Scholz

34 سالہ سلیمان ملک  18 برسوں سے جرمنی میں مقیم ہیں۔ ان کا تعلق پاکستان سے ہے اور اب وہ روانی سے جرمن زبان بولتے ہیں۔ وہ پرسنل کنسلٹنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں اور ضلع ایرفرٹ ریتھ کے ڈپٹی میئر بھی ہیں۔ تاہم ایک چھوٹے سے صنعتی پارک میں واقع اس مسجد کی تعمیر کے عمل میں بہت سے ضابطوں کی وجہ سے بھی رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔

برلن میں مسلم مخالف تعصب سے کیسے نمٹا جائے؟

ملک کو اس عمارت کے مقام پر کئی بار مردہ خنزیر بھی پڑے ہوئے ملے، جو وہاں پھینکے گئے  تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اکثر کاروں کے ڈرائیور کھڑکی سے ان کے ساتھ بدسلوکی کرتے یا پھر گندے فقرے کستے ہیں۔

اس کے خلاف مظاہرہ کرنے والے باقاعدگی سے عمارت کی جگہ سے سڑک کی دوسری جانب اس جگہ جمع ہوتے ہیں، جہاں کیتھولک مسیحی اپنی دعائیہ تقریب کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ ریاست تھورنگیا کے وزیر اعظم، جہاں ایرفرٹ واقع ہے، بوڈو رامیلو کو بھی تعمیراتی منصوبے کی حمایت کرنے پر اکثر سوشل میڈیا پر طنز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنے کی کوشش

سن 2019 میں 15 مارچ کے دن نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں سفید فام بالادستی کے ایک حامی نے حملہ کر کے 51 افراد کو قتل کر دیا تھا اور تقریباً 50 زخمی ہو گئے تھے۔ اسی مناسبت سے اقوام متحدہ نے 15 مارچ کو اسلامو فوبیا سے نمٹنے کا عالمی دن قرار دیا۔

جرمنی اپنے آئین اور بنیادی قانون کے تحت مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ تاہم گزشتہ برس جرمن کونسل نے انٹیگریشن اینڈ مائیگریشن سے متعلق جو سروے کیا، اس کے مطابق 15,000 جواب دہندگان میں سے تقریبا ایک تہائی نے مسلم اور اسلام مخالف رویوں کا اظہار کیا تھا۔

جرمنی میں تقریباً ہر ہفتے ہی کسی نہ کسی مسجد میں املاک کو نقصان پہنچانے یا پھر گریفٹی کی اطلاع ملتی رہتی ہے۔ فروری 2020 میں شہر ہناؤ میں ایک 43 سالہ سفید فام شخص نے ایک شیشہ بار میں نو افراد کو ہلاک کرنے کے بعد خود کو بھی ہلاک کر لیا تھا۔

جرمنی کی ایک مسلم تنظیم 'سینٹرل کونسل آف مسلمز' کے سیکرٹری جنرل عبد الصمد الیزیدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسلامو فوبیا ''بدانتظامی کی ہی ایک شکل ہے جو مرکزی دھارے میں داخل ہو چکی ہے۔'' معاشرے میں اسے تسلیم کر لیا گیا ہے اور اب اس کا ''کھل کر اظہار بھی کیا جا تا ہے۔''

47 سالہ الیزیدی کا کہنا تھا کہ فاشسٹوں کے لیے تو اسلامو فوبیا جرمن پارلیمان کے ساتھ ہی ریاستی اسمبلیوں میں ایک عام بات ہے۔ تاہم اب نام نہاد قائم ان جمہوری جماعتوں کے نمائندوں میں بھی یہ بات عام ہوتی جا رہی ہے، جو دائیں بازو کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے، گدلے پانیوں میں مچھلیاں پکڑ رہے ہیں۔''

 الیزیدی طویل عرصے سے بین المذاہب مکالمے میں شامل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی میں مسلمانوں کو ''بدنام'' کرنے کے لیے داغدار بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی کونسل نے متعدد بار وفاقی حکومت سے اسی طرز پر مسلم لائف کے لیے کمشنر مقرر کرنے کے لیے کہا ہے، جس طرح یہودیوں کی زندگی کے لیے ایک کمشنر اور سامیت دشمنی کے خلاف ایک کمشنر ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا، ''بہت سارے کمشنر ہیں، تقریباً 35، جو بہت اہم کام انجام دیتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کو منافقانہ دلائل کے ساتھ کمشنر دینے سے منع کر دیا جاتا ہے۔'' انہوں نے کہا کہ لوگ یہ تسلیم نہیں کرنا چاہتے کہ مسلم مخالف نسل پرستی بھی ایک مسئلہ ہے، جبکہ مسلمان ایسا ہر روز محسوس کرتے ہیں۔''

دنیا کے دیگر ممالک اور اداروں میں بھی اس طرح کے حکام کو تعینات کیا گیا ہے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے جنوری میں اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے پہلا کمشنر مقرر کیا تھا۔ یورپی یونین نے بھی سن 2015 میں مسلم دشمنی سے نمٹنے کے لیے کوآرڈینیٹر کا عہدہ تشکیل دیا تھا۔

سبھی کے لیے مسجد کھولنے کا دن

سلیمان ملک کا کہنا تھا کہ وہ اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جرمنی میں کچھ مسلمانوں نے نفرت انگیز جرائم کا بھی ارتکاب کیا ہے۔ اٹھارہ برس قبل ان کے والد، جو ایک کامیاب تاجر تھے، اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان سے    فرارد ہوکر جرمنی آئے تھے۔

ملک کا تعلق احمدی فرقے سے ہے، اور وہ احمدیہ جماعت کے رکن بھی ہیں۔ پاکستان میں اس مکتب فکر پر پابندی عائد ہے اور اسے ایک مظلوم اسلامی کمیونٹی مانا جاتا ہے۔ اس کمیونٹی کے دسیوں ہزار افراد جرمنی میں رہتے ہیں۔

ایرفرٹ میں مسجد کی عمارت کو مکمل کرنے میں ابھی کچھ اور وقت لگے گا، خاص طور پر بیرونی ڈیزائن میں۔ ملک نے بتایا ''تین اکتوبر کو جرمنی میں کھلی مسجد کا دن منایا جاتا ہے اور ہم پہلے سے ہی لوگوں کو یہاں مدعو کرنا چاہتے ہیں۔''

اس مسجد کا مینار اذان دینے کے لیے استعمال نہیں ہو گا، بلکہ یہ ایک علامت کے طور ہے، جو ایک اسلامی عبادت گاہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

ص ز/ ج ا (کرسٹوف اسٹریک)

جرمنی میں ریاستی مدد کے ساتھ اولین امام ٹریننگ کا آغاز