1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں کیڑے مکوڑوں کی تعداد میں شدید کمی

31 اکتوبر 2019

جرمنی میں کیڑے مکوڑوں سے متعلق سامنے آنے والے ایک طویل المدتی جائزے کو ایک ’بم‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ گزشتہ تیس برسوں کے دوران اس ملک میں اڑنے والے کیڑوں کی تعداد میں تین چوتھائی کمی واقع ہوئی ہے۔

https://p.dw.com/p/3SGD8
Schmetterlinge auf Blumenwiese
تصویر: Imago Images/Becker&Bredel

جرمن شہر کریفیلڈ کی اینٹیومولوجیکل سوسائٹی نے ایسی ہی ایک تحقیق اکتوبر دو ہزار سترہ میں شائع کی تھی لیکن اب میونخ کی مشہور ٹیکنیکل یونیورسٹی میں ارضی ماحولیات کے سائنسدانوں نے بھی اس امر کی تصدیق کر دی ہے۔ ان سائنسدانوں کی تحقیق تیس اکتوبر کو مشہور جرنل نیچر میں شائع ہوئی ہے۔

سائنسدانوں نے سن دو ہزار آٹھ سے سن دو ہزار سترہ تک باقاعدگی سے جرمنی کے تین مختلف حصوں میں پائے جانے والے کیڑے مکوڑوں کا مشاہدہ جاری رکھا۔ اڑنے والے کیڑے مکوڑوں کے ساتھ ساتھ دیگر حشرات اور مکڑیوں کا بھی مشاہدہ کیا گیا۔ کیڑے مکوڑوں کی تعداد سے متعلق کی جانے والی اس مفصل تحقیق کے لیے مجموعی طور پر ملک کے تین بڑے حصوں میں واقع دو سو نوے مقامات پر پائے جانے والے جنگلات اور سرسبز علاقوں کا جائزہ لیا گیا۔

اس تحقیق کے دوران تقریباً ایک ملین کیڑے مکوڑوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا اور ان حشرات کی ستائیس سو سے زائد اقسام کا جائزہ لیا گیا۔ جاری ہونے والی تحقیق کے مطابق گزشتہ تقریباً دس برسوں کے دوران ہی کیڑے مکوڑوں کی تعداد میں يہ ایک تہائی کمی واقع ہوئی ہے۔

اب کیا کیا جائے؟

جرمنی کی وفاقی وزیر ماحولیات سوینیا شولسے نے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ''اس تحقیق سے اندازہ ہوتا ہے کہ صورتحال کس قدر گھمبیر ہے۔ زراعت کی بقاء میں کیڑے مکوڑوں کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔‘‘ اس تحقیق میں شامل پروفیسر زائیبولڈ کا کہنا تھا کہ صرف خاص علاقوں پر توجہ مرکوز کرنے اور وہاں کیڑے مکوڑوں کی تعداد میں اضافے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا، ''ان کی کمی کو روکنے کے لیے نہ صرف علاقائی بلکہ قومی سطح پر مربوط رابطوں اور منصوبہ سازی کی ضرورت ہے۔‘‘

جرمنی میں کسانوں کی تنظیم کے صدر یوآخم روکویڈ کا کہنا تھا، ''اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے کسانوں کو اس کا حصہ بنانا لازمی ہے۔ زراعت کا تو انحصار ہی مکھیوں اور کیڑے مکوڑوں کی وجہ سے ہونے والی پولینیشن پر ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ کسانوں کی ایسوسی ایشن ماحول کے تحفظ کے لیے مکمل طور پر تعاون کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر کسان کچھ قابل کاشت علاقہ دوبارہ فطرت کے حوالے کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، '' رواں برس رضاکارانہ طور پر کسانوں نے ملک بھر میں فصلوں کے قریب پھولوں کی لائنیں اگائی ہیں تاکہ کیڑے مکوڑوں کی افزائش ہو اور انہیں کھانا مل سکے۔ ملک بھر میں پانچ میٹر چوڑی ایسی پٹیوں کی لمبائی دو لاکھ تیس ہزار میٹر سے بھی زائد تھی۔ یہ اتنے پھول تھے کی زمین کے گرد چھ لائینیں بنائی جا سکتی ہیں۔‘‘

دوسری جانب تحفظ ماحول کے کارکن ہر قسم کی کیڑے مار ادویات پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اسی طرح کیمیائی مادے گلیفوسیٹ پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔