1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں پناہ لینے والے ممکنہ جنگی مجرم

7 مارچ 2019

جرمنی میں مہاجرین کے بحران کے دوران لاکھوں پناہ گزینوں کی آمد کے ساتھ ساتھ ممکنہ جنگی مجرموں کی آمد سے متعلق ہزاروں شواہد کی اب تک چھان بین ہی نہیں کی گئی۔

https://p.dw.com/p/3EaBh
Ausländer in Deutschland
تصویر: Picture alliance/360-Berlin

جرمن روزنامے ’بلڈ‘ کے مطابق یہ بات وفاقی جرمن پارلیمان کو فری ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک رکن کی طرف سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں وفاقی جرمن وزارت داخلہ کی طرف سے بتائی گئی۔ سن دو ہزار چودہ سے لے کر دو ہزار انیس کے آغاز تک مہاجرت اور ترک وطن سے متعلق وفاقی جرمن دفتر کی طرف سے جرائم کی چھان بین کرنے والے وفاقی ادارے بی کے اے اور وفاقی دفتر استغاثہ کو پناہ کے متلاشی قریب پانچ ہزار غیر ملکیوں سے متعلق یہ اطلاعات دی تھیں کہ وہ ممکنہ طور پر جنگی جرائم میں ملوث رہے ہو سکتے تھے۔ ایسے واقعات میں سے صرف ایک سو انتیس کی چھان بین کی گئی تھی۔

اسرائیل ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کا مرتکب ہوا، اقوام متحدہ

جرمن میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق سن دو ہزار پندرہ اور سولہ میں ہی تین ہزار آٹھ سو ایسے افراد جرمنی پہنچ چکے تھے، جن کے بارے میں ایسے حوالے موجود تھے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے جنگی جرائم میں ملوث ہو سکتے ہیں لیکن تب بھی صرف اٹھائیس ایسے کیسوں کی چھان بین کی گئی تھی۔ جرمن وزارت داخلہ کے ایک ترجمان کا بِلڈ اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’اتنی بڑی تعداد میں موجود حوالوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں تھا کہ ہر ایک کیس کی الگ الگ تفتیش کی جاتی۔‘‘

’روہنگیا معاملے پر میانمار کی فوج پر فوجداری مقدمہ چلایا جائے‘

 فری ڈیموکریٹک پارٹی کی رکن  لِنڈا ٹوئٹے برگ کا اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا، ’’جنگی مجرموں کو جرمنی میں تحفظ نہیں ملنا چاہیے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’مجھے اس پر بھی شک ہے کہ وفاقی حکومت نے حالیہ برسوں میں ایسے کیسز کی سنجیدگی سے پیروی کی ہو۔‘‘ جرمنی میں سب سے زیادہ تارکین وطن سن دو ہزار پندرہ اور سولہ میں پہنچے تھے اور ان میں سے سب سے زیادہ تعداد شام سے آنے والے مہاجرین کی تھی۔ ان کے علاوہ عراق اور افغانستان کے جنگ زدہ علاقوں سے بھی مہاجرین جرمنی پہنچے تھے۔

ا ا / ع ا