جرمنی میں رمضان کا مہینہ: ایک مختلف معمول
9 اگست 2010اس کا مطلب باعمل مسلمانوں کے لئے يہ ہوگا کہ 30 روز تک دن کے وقت نہ کچھ کھانا، نہ پينا اور نہ ہی تمباکو نوشی۔ دنيا کے شمالی نصف کرے پر رہنے والے مسلمانوں کے لئے اس سال بھی يہ کچھ سخت مہينہ ہوگا کيونکہ موسم گرما ميں يہاں دن خاصے لمبے اور راتيں چھوٹی ہيں اور روزہ 15 گھنٹے طويل ہوگا۔ خاص طور پر ان مسلمانوں کے لئے يہ اور بھی مشکل ہوسکتا ہے جو کھانے پینے کی دکانوں اور ريستورانوں ميں کام کرتے ہيں۔
جرمنی کے صوبے نارتھ رائن ويسٹ فيليا کے شہر کولون ميں ايک ترک ریستوران کے مالک متين داگ کا کہنا ہے کہ وہ خود تو پابندی سے روزے نہيں رکھتے ليکن رمضان کے مہينے ميں ايک مخصوص فضا کو قائم رکھنا بھی ضروری ہے اور اسی لئے ان کے ريستوران ميں شام کو روزہ کھولنے کے وقت اذان کی آوازبھی گونجے گی۔
تاہم ريستوران ميں کام کرنے والے ایک نوجوان ترک بیرے مراد گوئک کی رائے اس سے بالکل مختلف ہے۔ مراد پابندی سے روزے رکھتا ہے۔ مراد نے کئی سال قبل جب پابندی سے روزے رکھنا شروع کئے تھے، تو يہ جرمنی ميں سردیوں کا زمانہ تھا۔ اس کے بعد سے ہر سال رمضان کا مہينہ 10 روز موسم گرما کے قريب آتا گيا اور دن لمبے ہوتے گئے۔ اس مرتبہ مراد کو پورے 15 گھنٹوں تک کھانے پينے اور سگریٹ نوشی سے گريز کرنا ہوگا۔ مراد نے کہا: ’’اس سال ہم صبح پانج بجے سے لے کر رات نو بجے تک کچھ نہيں کھائیں پیئں گے۔ يہ ايک مشکل کام ہوگا۔‘‘
روزہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان ميں شامل ہونے کے سبب تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ تاہم اس ميں مستثنيات موجود ہيں، مثلاً بيماری يا سفر۔ مراد گوئک ان مستثنيات سے فائدہ نہيں اٹھانا چاہتا حالانکہ اس کا کام عين اس وقت اور بھی بڑھ جاتا ہے جب روزہ کھولنے کا وقت ہوتا ہے۔ جب گاہک روزہ کھول رہے اور اپنی بھوک مٹا رہے ہوتے ہيں، تو اس وقت بيروں کو اور بھی زيادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ مراد نے کہا کہ روزے ميں دن بھر کھانے پينے کی چيزوں سے ربط ان کے لئے کوئی مسئلہ نہيں ہے۔ مشکل صرف اس وقت محسوس ہوتی ہے جب ریستوران خالی پڑا ہو۔ مراد نے کہا: ’’روزے ميں کام ميں مصروف ہونا بہتر ہے۔ ليکن اگر آدمی بيکار بيٹھا ہو اور کھا پی بھی نہ سکے تو يہ مشکل ہوتاہے۔‘‘
شہر کولون ميں اشيائے خورد و نوش کی ايک مراکشی دکان طنجہ ميں ماہ رمضان کی تيارياں زور شور سے جاری ہيں۔ دکان کے گودام ميں ايک ملازم يونس سامان اتارنے اور رکھنے ميں مصروف ہے۔ اس کا کہنا ہے: ’’رمضان ميں لوگ کھانے پينے کے معيار پر زيادہ زور ديتے ہيں۔ اس لئے اس مہينے ميں دکان ميں رکھی جانے والی اشياء عام دنوں کے مقابلے ميں کچھ مختلف ہوتی ہيں۔ مثلاً رمضان ميں کئی مختلف قسموں کے بسکٹ اور مٹھائياں ہوتی ہيں، جو ہم سال کے دوسرے مہينوں ميں نہيں ديکھتے يا وہ کبھی کبھار ہی فروخت کی جاتی ہيں۔‘‘
اس مراکشی دکان ميں رمضان سے چند دن پہلے مٹھائيوں کے علاوہ کئی قسم کے خشک ميوے، پھل اور دوسری لذيذ چيزيں بھی نظر آتی ہيں۔ تاہم یونس نے کہا کہ رمضان ميں سارا دن اس کام کے دوران انہيں ان اشياء سے گريز کرنے ميں کوئی مشکل پيش نہيں آتی۔ انہوں نے کہا کہ وہ ويسے بھی کھانے پينے کے کچھ خاص شوقين نہيں ہيں اور اس کے علاوہ بحيثيت مسلمان ايک بڑی عالمی اسلامی برادری کی حصہ ہونا بذات خود بھی بہت پرمسرت احساس ہے۔
يونس نے کہا: ’’مسلمانوں کو اس مہينے کا بڑے شوق سے انتظار ہوتا ہے۔ ميرے لئے صرف رمضان کا پہلا دن ہی مشکل ہوتا ہے۔ جب کھانے کا وقت ہوتا ہے تو مجھے تھکن محسوس ہوتی ہے۔ ليکن دو تين دن گذرنے کے بعد مجھے کوئی مشکل محسوس نہيں ہوتی۔‘‘
مراد گوئک اور يونس اسلام کے پانچ اراکين ميں سے ايک رمضان کے روزوں کو بہت اہميت ديتے ہيں۔ اندازہ ہے کہ جرمنی ميں سنی عقيدہ رکھنے والے مسلمانوں ميں سے 70 فيصد پابندی سے روزے رکھتے ہيں۔ علويوں ميں سے صرف 20 فيصد روزے رکھتے ہيں۔ مراد کے مطابق يہ ايک ايسا نجی دائرہ ہے جس ميں باہر سے مداخلت نہيں ہونا چاہئے۔ مراد نے کہا: ’’ہر فرد کو فيصلہ خود کرنا ہے اور وہ خود ہی جوابدہ بھی ہے۔‘‘
يونس کے خيال ميں روزہ کوئی اذيت نہيں بلکہ يہ جسمانی اور روحانی صفائی اور پاکيزگی کا ايک اچھا موقع ہے۔ اگر کوئی اس کی طاقت نہيں رکھتا، مثلاً بيمار تو اسے کھانا پينا چاہئے۔ اس کے علاوہ کھانے پينے کی اگر کوئی کمی ہوتی ہے تو وہ رمضان کے بعد بھی پوری کی جا سکتی ہے۔ یونس کا کہنا ہے کہ اب تک تو وہ ہر سال روزے رکھتا ہے اور ہر سال ہی وہ نئے سرے سے 30 روز تک سارا دن بغیر کچھ کھائے پیئے گذارنے کے چيلنج کا سامنا کرتا ہے۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: مقبول ملک