جرمنی کی سولہ ریاستیں ہیں اور ان سب میں ایک ساتھ ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔ جرمنی کی تراسی ملین آبادی میں تقریباً اکسٹھ ملین افراد حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل ہیں۔
جرمنی ابتداء میں تین سو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم تھا لیکن جب نیپولین نے اقتدار پر قبضہ کیا تو اُس نے ریاستوں کی تعداد کم کر کے تیس (30) کر دی۔ 1871ء میں جب پُروشیا کے چانسلر اُوٹو فون بسمارک نے جرمنی کو مُتحد کیا تو رائشٹاگ کے الیکشن میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی جو مارکس کے نظریے کی حامی تھی، اکثریت سے منتخب ہوئی۔ بسمارک نے پارٹی کی مقبولیت کو روکنے کے لیے فلاحی ریاست کا پلان نافذ کیا۔ اس کے بعد جرمنی میں رائشٹاگ کے بارہ جنرل الیکشن ہوئے۔
پہلی عالمی جنگ جس میں جرمنی کو شکست ہوئی تھی، اس کے بعد معاشی بحران کی وجہ سے مہنگائی میں بے حد اضافہ ہو گیا تھا۔ اِن حالات میں جرمن سیاست میں اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں اور ہٹلر کی رہنمائی میں نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی کی مقبولیت بڑھی۔ 1933ء کے جنرل الیکشن میں ہٹلر نے جارحانہ پراپیگینڈا کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دن میں وہ تقریباً تین شہروں میں خطاب کرتا تھا۔ وہ اس تیز ترین سفر کے لیے جہاز استعمال کرتا تھا۔ جلسہ ایک چھوٹے ہال میں منعقد ہوتا تھا تا کہ حال لوگوں سے بھر جائے اور جن کو حال میں جگہ نہ ملے وہ باہر کھڑے رہیں۔
ہٹلر کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کم از کم 15 منٹ کی تاخیر سے جلسہ گاہ میں آتا تھا تا کہ لوگ اُس کا انتظار کریں۔ انتخابات میں نازی پارٹی کو کامیابی ہوئی اور جرمنی کے صدر پاؤل فان ہنڈن برگ نے ہٹلر کو جرمنی کا چانسلر بنا دیا۔ جرمنی کے صدر کے انتقال کے بعد اُس نے صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ جب تک ہٹلر اقتدار میں رہا جرمنی میں کوئی انتخابات منعقد نہیں ہوئے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (SDP)، کرسچن ڈیموکریٹک یونین (CDU) اور لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (LDP) نے انتخابات میں حصہ لیا۔ جنگ کے بعد کونراڈ آڈیناؤر جرمنی کے پہلے چانسلر بنے۔ جرمنی نے ہٹلر کی آمریت اور جنگ کی تباہی کے نتیجے میں بہت کچھ سیکھا۔ آمریت کو روکنے کے لیے معاشرے کے ہر شعبے میں جمہوری روایات کو نافذ کیا۔ چاہے تعلیمی ادارے ہوں، سرکاری دفاتر ہوں یا کسی پلازہ کے رہائشی ہوں یہ ہر مسئلے کے لیے اسمبلی بُلا کر بحث و مُباحثہ کے زریعے اور اکثریتی ووٹوں کے ذریعے فیصلے کرتے رہے۔
یہ روایت بھی ہے کہ اگر کوئی سیاستدان یا چانسلر غلطی کرے تو اُس کا احتساب کیا جاتا ہے۔ سیاست کے سلسلے میں جرمنی کا میڈیا بہت حساس ہے۔ ولی برانٹ جنہیں جرمنی کا قابل ترین چانسلر کہا جاتا تھا، انہوں نے اس خبر کے بعد استعفیٰ دے دیا کہ اُن کے اسٹاف میں مشرقی جرمنی کا ایک مخبر شامل ہو گیا تھا۔ بہت سے سیاستدانوں نے تو اپنے خلاف اسکینڈلز سامنے آنے یا تنقید کے بعد اپنے عہدوں سے استعفے دے دیے۔
ابھی حال میں کرسٹینے لامبریشٹ نے وزارت دفاع کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ انہیں کئی معاملات میں تنقید کا سامنا تھا۔ سابق صدر کرسٹیان وولف نے بھی بدعنوانی کے الزامات کے بعد اپنا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔ اسی طرح ماضی میں وزیر دفاع رہنے والے کارل تھیوڈور سو گٹن برگ بھی سرقے کے الزامات کے بعد اپنا منصب اور سیاست دونوں ہی چھوڑ گئے تھے۔
جرمنی کے الیکشن شفاف ہوتے ہیں۔ اُمیدوار میڈیا کو اپنے پراپیگینڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جلسے جلوس بہت منظم انداز میں منعقد ہوتے ہیں۔رائے دہی کے لیے اتوار کے دن رکھا جاتا ہے۔ زیادہ تر پولنگ اسٹیشنز تعلیمی اداروں میں بنائے جاتے ہیں اور کسی بھی پولنگ بوتھ کے باہر کسی بھی سیاسی جماعت کا کوئی کیمپ نہیں لگا ہوتا۔شہری آتے جاتے ہیں اور خاموشی سے اپنا ووٹ ڈال کر چلے جاتے ہیں۔ انتخابات سے قبل لگائے جانے والے اندازے اکثر درست ثابت ہوتے ہیں۔ انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد ایک دوسرے پر الزام تراشی بھی نہیں کی جاتی اور ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو بخوشی تسلیم بھی کیا جاتا ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔